مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ اور مشرک دونوں نہیں چاہتے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر خیر و برکت (یعنی وحی الٰہی) نازل ہو (اور اس لیے وہ طرح طرح کے شک پیدا کرکے تمہیں سچائی کی راہ سے باز رکھنا چاہتے ہیں) لیکن اللہ (کا قانون اس بارے میں انسانی خواہشوں کا پابند نہیں ہوسکتا وہ) جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بہت بڑا فضل رکھنے والا ہے
یہودیوں کو اصل تکلیف یہ تھی کہ نبی آخر الزماں بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے جنھیں وہ کمتر اور حقیر قوم سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اللہ جو چاہتا ہے جس کو چاہتا ہے عطا کردیتا ہے۔ یہود پیغمبری کو اپنا حق سمجھتے تھے آپ دیکھیں سورج اور چاند کیا پیغام دیتے ہیں اللہ نے ان کو خاص کرلیا۔ چاند جیسی روشنی کسی اور ستارے یا سیارے میں نہیں۔ جیسے آسمان كا چراغ آفتاب اور ماہتاب ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھی ایسی ہستیاں بھیجیں جن سے انسانیت کو روشنی ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سراج المنیر ہیں۔ آپ نے ان چہروں کو روشن کردیا جنھوں نے آپ کی بات کو سنا اور عمل کیا آپ کا بلند مرتبہ ہونا آپ کا اخلاق تھا۔ آپ صادق و امین تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کرکے انسانیت پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔