فَلَمَّا عَتَوْا عَن مَّا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ
پھر جب یہ (سزا بھی انہیں عبرت نہ دلا سکی اور) وہ اس بات میں حد سے زیادہ سرکش ہوگئے جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا، بندر ہوجاؤ، ذلت و خواری سے ٹھکرائے ہوئے۔
جیسے برائی کرنا جرم ہے، ویسے ہی برائی سے نہ روکنا بھی اتناہی جرم ہے: نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں اور خلاف ورزی دیکھ کر خاموش رہنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ان لوگوں کی جنھوں نے جہاز میں بیٹھنے کے لیے قرعہ اندازی کی، کچھ لوگوں کے حصے میں نچلی منزل اور کچھ کے حصے میں اوپر والی منزل آئی۔اب نچلی منزل والے پانی لیکر جب بالائی منزل والوں کے پاس سے گزرتے توانھیں اس سے تکلیف پہنچتی یہ دیکھ کر نچلی منزل والوں میں سے ایک نے کلہاڑی لی اور جہاز کے پیندے میں سوراخ کرنے لگا، بالائی منزل والوں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے، اس نے جواب دیاکہ ہماری وجہ سے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے، اور ہمارا پانی کے بغیر گزارہ نہیں، اب اگراوپر والوں نے اسکا ہاتھ پکڑلیا تو اُسے بھی بچالیا اور خود بھی بچ گئے اور اگر اُسے چھوڑدیا تو اُسے بھی ہلاک کیا اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کیا۔ (بخاری: ۲۴۹۳) بعض مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن کریم میں ان تینوں گروہوں میں سے ایک کے متعلق فرمایا کہ ہم نے برائی سے منع کرنے والوں کو بچالیا، اور نا فرمانی کرنے والوں کو عذاب میں پکڑ لیا، رہا تیسرا گروہ جو نہ خود برائی کرتا تھا نہ روکتا تھا، اس کے لیے قر آن نے سکوت اختیار کیا ہے، تو ہمیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ بندر اور سؤر بنا دیے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد اور نسل کو باقی نہیں رکھا اور بندر اور سؤر تو ان سے پہلے بھی تھے۔ (مسلم: ۲۶۶۳، مسند احمد: ۱/ ۳۹۰، ح: ۳۶۹۹)