وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
اور (اے پیغمبر) بنی اسرائیل سے اس شہر کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھا اور جہاں سبت کے دن لوگ خدا کی ٹھہرائی ہوئی حد سے باہر ہوجاتے تھے، سب کے دن ان کی (مطلوبہ) مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے پاس آجاتیں مگر جس دن سبت نہ مناتے نہ آتیں، اس طرح ہم انہیں آزمائش میں ڈالتے تھے، بہ سبب اس نافرمانی کے جو وہ کیا کرتے تھے۔
یہ یہودیوں کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جس میں انھیں ہفتہ کے دن مچھلیوں کا شکار کرنے سے منع کردیا گیا تھا، لیکن بطور آزمائش ہفتہ کے دن مچھلیاں اُچھل اُچھل کر آتیں اور انھیں دعوت شکار دیتیں، اور جب یہ دن گزر جاتا تو اسطرح نظر نہ آتیں، آخر کاریہودیوں نے حکم الٰہی سے تجاوزکیا، سمندرکے کنارے گڑھے کھود لیے۔ مچھلیاں ہفتے کے دن ان میں آگر تیں، اور جب ہفتہ کا دن گزر جاتا تو وہ انھیں پکڑ لیتے۔ یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہودی قوم نسل در نسل نافرمان چلی آرہی ہے ۔ اور نا فرمانی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا رہے ہیں کہ ان کے باپ داداؤں نے جو نا فرمانیاں کیں تھیں اس وجہ سے ہماری اچانک پکڑان پر مسلط ہوئی، ان کو بندر بنا دیا گیا جب ایک دوسرے کو پہچانتے چیخیں مارتے تھے پھر اسی حالت میں تین دن بعد مر گئے، بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان کے چہروں میں اس قسم کا ورم پیدا ہوا جس سے انکے چہرے بندروں جیسے معلوم ہوتے تھے، آخر اسی حالت مین تین روز بعد مر گئے، یہ واقعہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہودیوں کی طرح حیلے کر کے ذرا سی دیر کے لیے اللہ کی حلال کو حرام نہ کر لینا۔(بخاری: ۲۲۳۶، ترمذی: ۱۲۹۷)