وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ ۚ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
اور پھر (وہ واقعہ یاد کرو) جب بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا، اس (٢) شہر میں جاکر آباد ہوجاؤ، (جس کے فتح کرنے کی تمہیں توفیق ملی ہے) اور (یہ نہایت زرخیز علاقہ ہے) جس جگہ سے چاہو اپنی غذا حاصل کرو اور تمہاری زبانوں پر حطۃ (٣) کا کلمہ جاری ہو اور اس کے دروازے میں داخل ہو تو (اللہ کے حضور) جھکے ہوئے ہو۔ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں اور نیک کرداروں کو (اس سے بھی) زیادہ اجر دیں گے۔
جس شہر کو بنی اسرائیل نے فتح کیاا نہیں یہاں آباد ہونے کا حکم دیا، اور آئندہ کا لا ئحہ عمل بتا یا اور ساتھ ہی ہدایت کی کہ جب فاتحانہ اس شہر میں داخل ہو تو اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور اپنے لیے دُعا مغفرت کرتے ہوئے داخل ہونا، تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور عمل صا لح کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے،جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن حکم ہوا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ شکر ادا کیا، فتح مکہ کے بعد آپ میں اللہ کے حضور عجزو انکساری پہلے سے بھی بڑھ گئی، اور پہلے سے بھی زیادہ اللہ کی عبادت کرنے لگے، فتح کے بعد انتقام کی بجائے آپ نے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔