الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
جر رسول کی پیروی کریں گے کہ نبی امی ہوگا اور اس کے ظہور کی خبر اپنے یہاں تورات اور انجیل میں لکھی پائیں گے، وہ انہیں نیکی کا حکم دے گا، برائی سے روکے گا، پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا، گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا، اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہوں گے، تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کے مخالفوں کے لیے روک ہوئے (راہ حق میں) اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہو لیے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے ہیں۔
امربا لمعروف، نہی عن المنکر کی اہمیت : یہ فریضہ اتنا اہم ہے جسے تمام آسمانی شریعتوں میں واجب قرار دیا گیا ہے، اور کسی نبی کے سچا ہونے کا ایک معیاریہ بھی ہے کہ کیا وہ اپنے پیروکاروں کو اس فریضہ کو بجا لانے کا حکم دیتا ہے یا نہیں۔ ہر قل بادشاہ نے جب ابو سفیان کوبلاکر چند سوالات پو چھے تو ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ یہ نبی کیسی باتوں کا حکم دیتا ہے؟ تو ابو سفیان نے بتلایا کہ وہ فلاں فلاں (بھلے)کاموں کا حکم دیتا ہے اور فلاں فلاں بُرے کاموں سے روکتاہے، تو ہرقل نے کہا کہ تمام نبی ایسا ہی کرتے ہیں۔ (بخاری: ۷) آپ کا بعض چیزوں کا حلال اور بعض کو حرام کرنا: وہ پاکیزہ اور حلال اشیا ء جن کوحضرت یعقوب علیہ السلام نے بوجہ بیماری اپنے اوپر حرام قرار کر لیا تھا، اور وہ چیزیں جو یہود کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر حرام کر دی گئی تھیں، شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حلال کردی گئیں مثلاً اونٹ کا گوشت، گائے کی چربی وغیرہ اور بعض حرام چیزوں کو یہودنے حلال قرار دے لیا تھا جنھیں آپ کی شریعت میں پھر سے حرام قرار دے دیا گیا، جیسے سود، ناجائز طریقے سے لوگوں کا مال جائز اور حلال سمجھ کر حاصل کرنا، تمام درندوں، شکاری، پرندوں اور گھریلو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا، اس کے علاوہ خبائث میں وہ اشیائے خوردنی بھی شامل ہیں جو گندی، باسی اور بدبودار ہوں اور گل سڑ گئی ہوں۔ بنی اسرائیل پر احکام میں سختی: اس میں وہ قیود و بند شیں بھی شامل ہیں جن کا انھیں شرعاَحکم تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ: ’’قتل کے بدلے صرف قصاص کا حکم تھا، دیت یا خون بہا کی رعایت یا رخصت نہیں تھی، یاان کے جسم کے کسی حصے پر پیشاب کے چھینٹے پڑجاتے تو وہ کپڑے کا اتنا حصہ قینچی سے کاٹ دیتا۔‘‘ (نسائی: ۷۵) جبکہ ہماری شریعت میں ایسا حصہ صرف دھونے سے پاک ہو جاتا ہے، اور ایسی بندشیں بھی جوان کے علمانے ازخود عا ئد کرلی تھیں، حا ئضہ عورت کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہ کھا تے، الگ جگہ پر ان کے رہنے کا بندوبست کرتے۔ (ابن ماجہ: ۶۴۴) جبکہ ہماری شریعت میں سوائے صحبت کے کوئی پابندی نہیں، اس نبی اُمی نے ان سب بندشوں اور قیدوں کے بوجھ سے لوگوں کو نجات دی۔ کامیاب ہونے والے کون؟ کامیاب وہی لوگ ہونگے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ نور کا اتباع سے مراد: قرآن مجید ہے، کیونکہ جو نو ر آ پکے ساتھ نازل کیا گیاہے، وہ قرآن مجید ہی ہے، اس لیے اس نور سے خود نبی کریم کی ذات مراد نہیں ہے، البتہ آپ کی صفات میں سے ایک صفت نور بھی ہے جسکی وجہ سے کفر و شرک کی تاریکیاں دور ہو ئیں۔