وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ
اور (خدایا) اس دنیا کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی لکھ دے اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی کر، ہم تیری طرف لوٹ آئے، خدا نے فرمایا میرے عذاب کا حال یہ ہے کہ جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں اور رحمت کا حال یہ ہے کہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، پس میں ان لوگوں کے لیے رحمت لکھ دوں گا جو برائیوں سے بچیں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور ان کے لیے جو میری نشانیوں پر ایمان لائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت: یہ اللہ کی وسعت رحمت ہی ہے کہ دنیا میں صالح، مومن، فاسق وفا جر سب اسکی رحمت سے مستفید ہورہے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی اُمت کے لیے دنیا و آخرت میں بھلائی طلب فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ۔میری رحمت ساری مخلوق پر حاوی ہے، سزا تو میں صرف اس شخص کو دیتا ہوں جسکی نافرمانیوں کی بنا پر وہ مقدر ہو چکی ہو، اور جس خیر اور بھلائی کا تم مطا لبہ کر رہے ہو کہ دنیا میں بھی یہ نعمت ملے اور آخرت میں بھی،یہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے، جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تقویٰ کی راہ اختیا ر کرتے ہیں اور اپنے اموال میں سے ہمار احق یعنی زکوۃ ادا کرتے ہیں، ایسے لوگ دنیا و آخرت دونوں جگہ میری رحمت سے ہمکنا ر ہونگے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ عزوجل نے اپنی رحمت کے سو حصے کیے ہیں جن میں سے صرف ایک ہی حصہ دنیا میں اُتارا، اُسی سے مخلوق ایک دوسرے پر تر س کھاتی ہے، اور رحم کرتی ہے، اسی سے حیوان بھی اپنی اولاد کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کرتے ہیں، باقی ننا نوے حصے تو اس کے پاس ہی ہیں جن کا اظہا ر قیامت کے دن ہوگا۔ (مسلم: ۵۲/ ۲۷۵۳، بخاری: ۶۰۰۰)