وَاخْتَارَ مُوسَىٰ قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِّمِيقَاتِنَا ۖ فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُم مِّن قَبْلُ وَإِيَّايَ ۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا ۖ إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَن تَشَاءُ وَتَهْدِي مَن تَشَاءُ ۖ أَنتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ
اور اس غرض سے کہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت میں حاضر ہوں موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چنے، پھر جب لرزا دینے والی ہولناکی نے انہیں آلیا تو موسیٰ نے (ہماری جناب میں) عرض کیا پروردگار ! اگر تو چاہتا تو ان سب کو اب سے پہلے ہی ہلاک کر ڈالتا اور خود میری زندگی بھی ختم کردیتا (مگر تو نے اپنے فضل و رحمت سے ہمیں مہلت دی) پھر کیا ایک ایسی بات کے لیے جو ہم میں سے چند بے وقوف آدمی کر بیٹھے ہیں تو ہم سب کو ہلاک کردے گا؟ یہ اس کے سوا کیا ہے کہ تیری طرف سے ایک آزمائش ہے، تو جسے چاہے اس میں بھٹکا دے جسے چاہے راہ دکھا دے۔ خدایا ! تو ہمارا والی ہے، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تجھ سے بہتر بخشنے والا کوئی نہیں۔
ستر منتخب آدمیوں کا دیدار الٰہی کا مطالبہ اور ان کی موت: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زندگی کا لائحہ عمل بتا نے کے لیے قوم کو تختیا ں دیں تو انھوں نے آپ پر بد اعتمادی کا اظہار کر دیا، کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ مِن جانب اللہ ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کا یہ سوال اللہ کے سامنے پیش کردیا، توا للہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ستر آدمی منتخب کرکے فلاں وقت پر کوہ طور لے آؤ، چنانچہ ۱۲ قبیلوں میں سے چھ چھ آدمی منتخب کیے۔ بہتر ہوگئے آپ نے فرمایا جو دو آدمی پیچھے رہ جائیں گے انھیں بھی اتناہی ثواب ملے گا ۔چنانچہ ستر آدمیوں کے ہمراہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر پہنچے اور اللہ ان سے ہم کلام ہوا توا نہوں نے بھی مطالبہ کرد یا کہ ہم بھی اللہ کو دیکھنا چاہتے ہیں پھر ہمیں یقین آئے گا، اسکے علاوہ انھوں نے وہاں جاکر جو دعائیں کیں ان میں سے ایک دُعا یہ بھی تھی کہ یا اللہ ہمیں تو وہ کچھ عطا فرما جو اس سے پہلے تونے کسی کو عطا نہیں کیا، اور نہ آئندہ کسی کو عطا کرنا۔اللہ تعالی کو یہ دعا پسندنہیں آئی۔ جس پر زلزلے اور کڑک سے سب ہلاک کر دیے گئے یہ سب دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے اور اللہ سے دُعا کی کہ چند نادان لوگوں کی وجہ سے آپ نے سب کو ہلاک کر دیا، اگر آپ نے ہلاک ہی کرنا تھا تو اُسو قت ہلا ک کر دیتے جب یہ بچھڑے کی عبا دت میں مصروف تھے، چنانچہ آپ کی دُعا سے اللہ تعالیٰ نے ان ہلاک شدہ لوگوں کا گناہ معاف کردیا اور انھیں دوبارہ زندگی بخشی گئی۔ اس کی ساری تفصیل سورۂ بقرہ کی آیت ۵۶ میں مذکور ہے۔