وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
اور جب موسیٰ آیا تاکہ ہمارے مقررہ وقت میں حاضری دے، اور اس کے پروردگار نے اس سے کلام کیا تو (جوش طلب میں بے اختیار ہوکر) پکار اٹھا، پروردگار ! مجھے اپنا جمال دکھا کہ تیری طرف نگاہ کرسکوں، حکم ہوا تو مجھے کبھی نہ دیکھ سکے گا۔ مگر ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر یہ (تجلی حق کی تاب لے آیا اور) اپنی جگہ ٹکا رہا تو (سمجھ لیجیو تجھے بھی میرے نظارہ کی تاب ہے اور تو) مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے پروردگار (کی قدرت) نے نمود کی تو پہاڑ ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ غش کھا کے گر پڑا۔ جب موسیٰ ہوش میں آیا تو بولا خدایا ! تیرے لیے ہر طرح کی تقدیس ہو ! میں (اپنی جسارت سے) تیرے حضور توبہ کرتا ہوں، میں ان میں پہلا شخص ہوں گا جو (اس حقیقت پر) یقین رکھتے ہیں۔
دیدار الٰہی کا مطالبہ : چالیس دن کی شبانہ روز عبادت وریاضت کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرف کلام بخشا تو آپ کے دل میں اللہ کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا اور اپنے اس شوق کا اظہار (رَبِّ اَرِنِیْ) ’’اے پروردگار اپنا دیدار مجھ کو کراد یجیے‘‘ کہہ کر کیاجس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لَنْ تَرٰ نِیْ) تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا ۔ پھر فرما یا ‘‘ تم اس پہاڑ کی طرف دیکھو، جس پر میں اپنی تجلیات کا تھوڑا سا پَر تو ڈالو نگا اگر پہاڑ اپنی جگہ قائم رہا تو تم شاید مجھے دیکھ سکو، پھر اللہ تعالیٰ نے جب اپنا پَر تو طور پہاڑ پرڈالا تو وہ ریز ریزہ ہو کر زمین بوس ہو گیا، ، اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوکرگِر پڑے پھر جب موسیٰ علیہ السلام کو ہوش آیا تو پہلی بات یہ کی کہ میں تو بہ کرتا ہوں، تیری عظمت و جلال کا اقرار کرتا ہوں اور اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ فانی آنکھوں سے تیرا دیدار نا ممکن ہے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: ’’قیامت والے دن سب لوگ بیہوش ہونگے (یہ بیہوشی امام ابن کثیر کے بقول میدان محشر میں اس وقت ہو گی جب اللہ تعالیٰ فیصلے کر نے کے لیے جلوہ افروز ہونگے) اور جب ہوش میں آئیں گے تو میں ہوش میں آنے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوں گا ‘‘ میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہونگے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آئے یا انھیں کوہ طور کی بیہوشی کے بد لے میں محشر کی بیہوشی سے مستثنیٰ رکھا گیا۔ (ابن کثیر: ۲/ ۳۹۸، بخاری: ۳۴۰۸) اہل ایمان اللہ کو دیکھیں گے: اخرو ی زندگی میں مومنوں کو اللہ کا دیدار ہونا بہت سی آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ اہل ایمان اللہ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار الٰہی سے مشرف ہونگے، تمام اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔ صرف دنیا میں رب کا دیدار ممکن نہیں کوئی انسانی آنکھ اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں، لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ان آنکھوں میں اتنی قوت پیدا فرما دے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلوے کو برداشت کر سکے۔