وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ
اور ہمارے حکم سے ایسا ہوا کہ بنی اسرائیل سمندر پار اتر گئے، وہاں ان کا گزر ایک گروہ پر ہوا کہ اپنے بتوں پر مجاور بنا بیٹھا تھا، بنی اسرائیل نے کہا، اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی ایسا ہی ایک معبود بنا دے جیسا ان لوگوں کے لیے ہے، موسیٰ نے کہا (افسوس تم پر) تم بلاشبہ ایک جاہل گروہ ہو۔
گؤسالہ پرستی کی فرمائش : بنی اسرائیل اگر چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکے تھے، تاہم ان کے اندر گؤ سالہ پرستی کے جراثیم ہنوز باقی تھے ۔سمندر پار کرتے ہی انھوں نے کچھ لوگوں کو پیتل کے بنے ہوئے، بچھڑے کے بت کے گرد پوجا پاٹ کرتے دیکھا، توپرانی یاد تازہ ہوگئی اس سے بڑی جہالت اور نادانی کیا ہو گی کہ جس اللہ نے انھیں فرعون جیسے بڑے دشمن سے نہ صرف نجات دی بلکہ اُن کی آنکھوں کے سامنے اُسے لشکر سمیت غرق کردیا،اس اللہ کو بھول کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بچھڑے جیسے بت کی فرمائش کردی۔