يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ ۖ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ
یہ چاہتا ہے (اپنی ان طاقتوں سے کام لے کر) تمہیں ملک سے نکال باہر کرے (اور خود مالک بن بیٹھے) اب بتلاؤ تمہاری صلاح اس بارے میں کیا ہے ؟
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی باتیں سُن کرفرعون اور درباریوں کو واقعی خد شہ پیدا ہو گیا تھاکہ یہ شخص انقلاب لا سکتا ہے ۔ مو سیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو گری کو بڑا عروج حاصل تھا، اس لیے حضرت موسی علیہ السلام کے معجزات کوبھی انھوں نے جادو سمجھا، اور جادو کے ذریعے سے اسکا توڑ مہیا کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ درباریوں نے مشورہ دیا کہ دونو ں بھائیوں کا معا ملہ تو اسوقت رفع دفع کراؤ۔اور ملک کے ہر حصے میں ہرکارے بھیج کے تمام بڑے بڑے جادو گروں کو دربار میں جمع کرو ۔ تاکہ ان سے مقابلہ کیا جائے۔ جیسا کہ سورۂ طہ میں ارشاد ہے: ﴿قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يٰمُوْسٰى۔ فَلَنَاْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِّثْلِهٖ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُهٗ نَحْنُ وَ لَا اَنْتَ مَكَانًا سُوًى۔ قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَةِ وَ اَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى ﴾ (طہ: ۵۷۔ ۵۹) ’’اے موسیٰ کیا تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری زمین سے نکال دے؟ پس ہم بھی اس جیسا جادو تیرے مقابلے میں لائیں گے پس تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدے کا وقت مقرر کرلے، کہ نہ ہم اس کے خلاف کریں اور نہ تو، صاف میدان میں مقابلہ ہو، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ نو روز (عید) کا دن اور چاشت کا وقت ہے۔‘‘ اس حساب سے لوگ جمع ہو جائیں۔