حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ
میرا فرض منصبی ہے خدا کے نام سے کوئی بات نہ کہوں مگر یہ کہ سچ ہو، میں تیرے پروردگار کی طرف سے (سچائی کی) روشن دلیلیں لایا ہوں۔ سو بنی اسرائیل کو (آئندہ اپنی غلامی پر مجبور نہ کرو) اور میرے ساتھ رخصت کردے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے پاس پہنچ کر دوباتیں ارشاد فرمائیں (1) میں رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں اور میری سچائی کے طور پر مجھے دو معجزے بھی عطاء کئے گئے ہیں، لہٰذا تم اپنی خدائی سے دستبر دار ہوکر اللہ پر اور مجھ پر ایمان لے آؤ (2)بنی اسرائیل کو رہا کرکے میرے ساتھ روانہ کردو ۔ بنی اسرائیل کو ن تھے: بنی اسرائیل کا اصل مسکن شام کا علاقہ تھا، یہ لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں مصر چلے گئے تھے اور پھر وہیں آباد ہو گئے تھے فرعون نے ان کو غلام بنالیا تھا۔ اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا تا تھا۔ حضرت موسیٰ نے فرعون سے انکی رہائی کا مطالبہ کر دیا، تاکہ وہ اپنے آبائی مسکن جا کر عزت واحترام کی زندگی بسر کریں اور اللہ کی عبادت کریں ۔