وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ ۖ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ
اور ان میں سے اکثروں کو ہم نے ایسا پایا کہ اپنے عہد پر قائم نہ تھے (یعنی انہوں نے اپنا فطری شعور و وجدان کہ فطرت انسانی کا عہد ہے ضائع کردیا تھا) اور اکثروں کو ایسا ہی پایا کہ یک قلم نافرمان تھے۔ (١)
عہد سے مراد وہ عہد جو ہر انسان میں فطری طور پر موجود ہے جسے ’’عہد الست‘‘ کہتے ہیں، جو روز ازل میں لیا گیا کہ وہ اپنے پروردگار کے سواکسی کو معبود نہیں بنائے گا، اسی کی تاکید انبیاء علیہم السلام کرتے رہے لیکن انھوں نے عہد کو پس پشت ڈال دیا ۔ عہد کے خلاف غیر اللہ کی پر ستش شروع کر دی اللہ کو خالق، مالک اور رازق مان کر آئے تھے، یہاں آکر بے دلیل، خلاف عقل، خلاف فطرت اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت میں لگ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں نے اپنے بندوں کو موحد اور یک طرفہ پیداکیا ہے ۔ لیکن شیطان نے آکر انھیں بہکادیا اور میری حلا ل کر دہ چیزیں ان پر حرام کر دیں۔‘‘ (بخاری: ۱۳۸۵) اس کے علاوہ وہ عہد بھی مراد ہو سکتا ہے جو ایک انسان دوسرے انسان سے کرتا ہے۔ خواہ وہ لین دین کے معاملات سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق کے معاملات سے اور وہ عہد بھی جو انسان ذاتی طور پر اپنے رب سے کرتا ہے۔ یعنی عہد خواہ کسی طرح کا ہو اِسے توڑنے والا فاسق ہو تا ہے: ﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: ۳۶) ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا کہ لوگو! صرف اللہ ہی کی عبادت کرو، اور اسکے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو،اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہی سے اللہ کے علم میں یہ بات مقرر تھی کہ انھیں ایمان نصیب نہیں ہوگا، یہی ہو کر رہا اور باوجود دلائل سامنے آجانے کے ایمان نہ لائے، اللہ کو یہ بات معلوم تھی جو انھوں نے عہد الست والے دن ایمان قبول کیا وہ جبراََ اور نا خوشی سے تھا ۔قرآن میں ہے کہ یہ اگر دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا ئے جائیں، تو پھر وہی کا م نئے سر ے سے کرنے لگیں گے جن سے انھیں روکا گیاہے۔