ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَوا وَّقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَأَخَذْنَاهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پھر جب ایسا ہوا کہ وہ (خوشحالیوں میں) خوب بڑھ گئے اور ( پاداش عمل سے بے پروا ہوکر) کہنے لگے ہمارے بزرگوں پر سختی کے دن بھی گزرے راحت کے بھی (یعنی دنیا میں اچھی بری حالتیں پیش آتی ہی رہتی ہیں، جزائے عمل کوئی چیز نہیں) تو اچانک ہمارے عذاب کی پکڑ میں آگئے اور وہ بالکل بے خبر تھے۔
یعنی فقر و بیماری کی مصیبت میں مبتلا ہو کر بھی ان کے دل اللہ کی طرف نہ پلٹے تو اللہ نے انھیں تنگ دستی سے خوشحالی، اور بیماری کو صحت و عافیت سے بدل دیا، تاکہ وہ اللہ کا اس پر شکر اداکریں، لیکن اس انقلاب حال سے بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے کہاکہ یہ تو ہمیشہ سے ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ کہ کبھی تنگی آگئی کبھی خوشحالی کبھی بیماری تو کبھی صحت، کبھی فقیری تو کبھی امیری، یعنی نہ تنگ دستی کا پہلا علاج ان کے لیے موثر ثابت ہوا اور نہ خو شحالی ان کی اصلاح احوال کے لیے کارگر ثابت ہوئی، اور وہ بد مست اور مغرور ہو گئے ۔ کہنے لگے یہ تو اتفاقات زمانہ ہیں کبھی دن بڑے، راتیں چھوٹی، اور کبھی راتیں بڑی اور دن چھوٹے، زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا ۔اور ایمان والے ہمیشہ عبرت پکڑتے ہیں مصیبت پر صبر اور خو شی پر شکر انکاشیوا ہوتا ہے ۔(ابن کثیر: ۲/ ۳۸۰) حدیث میں ہے كہ: ’’بلاؤں کی وجہ سے مومن کے گناہ بالکل دور ہو جاتے ہیں اور وہ پاک صاف ہو جاتا ہے ہا ں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جسے نہیں معلوم کہ ا س کے مالک نے اسے کیوں باند ھا ۔ اور کیوں چھوڑ دیا۔‘‘ (احمد: ۲/ ۴۵۰) جب یہ دنیا میں مست اور مگن ہو جا تے ہیں تو یہی وقت ہمارے عذاب کا ہو تا ہے اور ہمارا عذاب اچانک آن پڑتا ہے اور کسی کو اسطرح عذاب آجا نے کا پہلے احساس تک نہیں ہو نے پاتا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’اچانک موت مومنوں کے لیے رحمت اور کافروں کے لیے حسرت ہے۔‘‘ (احمد: ۶/ ۱۳۶)