إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ
تم عورتوں کو چھوڑ کر نفسانی خواہش سے مردوں پر مائل ہوتے ہو، یقینا تم ایک ایسی قوم ہوگئے ہو جو (اپنی نفس پرستیوں میں) بالکل چھوٹ ہے۔
تفسیر طبری میں روایت ہے کہ جامع دمشق کے بانی خلیفہ ولید بن عبدالملک کہتے ہیں، اگر یہ خبر قرآن میں نہ ہوتی، تو میں اس بات کو کبھی نہ مانتا کہ مرد مرد سے حاجت روائی کرے۔ (طبری: ۱۲/ ۵۴۹) اسی لیے حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے حرام کاروں سے فرمایا کہ تم سے پہلے تو یہ ناپاک اور خبیث فعل کسی نے نہیں کیا، عورتوں سے جس کام کے لیے اللہ نے حکم دیا ان کو چھوڑ کر تم مردوں پر ریجھ گئے ہو۔ اس لیے یہ فعل فطرت کی وضع کے خلاف ہے اور مرد و عورت کے جنسی اعضاء کی ساخت جو حصول لذت کی اصل جگہ ہے یہ ان کی فطرت کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ ہے یعنی مرد کی جنسی تسکین کے لیے اللہ نے عورت کی شرمگاہ کو اس کے لیے موزوں بنایا ہے۔ اور ان ظالموں نے اس سے تجاوز کرکے مرد کی دُبر کو استعمال کرنا شروع کردیا۔