أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
(نیز نوح (١) نے کہا) کیا تمہیں اس بات پر اچنبھا ہورہا ہے کہ تمہارے پروردگار کی نصیحت ایک ایسے آدمی کے ذریعہ تمہیں پہنچی تو تم ہی میں سے ہے؟ اور اس لیے پہنچی تاکہ (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کردے۔ اور تم برائیوں سے بچو اور رحمت الہی کے سزاوار رہو۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی دعوت کے جواب میں منکرین کی طرف سے ایک جیسے اعتراضات ہی سامنے آتے تھے مثلاً تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہوکر اللہ کے رسول کیسے ہوسکتے ہو۔ اسی اعتراض کا جواب نوح علیہ السلام بھی دے رہے ہیں کہ تم اس بات کو انوکھا اور تعجب والا نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے کسی انسان پر وحی نازل فرمائے اور اُسے اپنی پیغمبری سے ممتازکردے تاکہ وہ تمہیں ہوشیار کردے، اور تم شرک و کفر سے الگ ہو کر عذاب الٰہی سے نجات پالو۔ اور تم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔