إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو چھ ایام میں (یعنی چھ دوروں میں یکے بعد دیگرے واقع ہوئے) پیدا کیا اور پھر (اپنی حکومت و جلال کے) تخت پر متمکن ہوگیا۔ (اس نے رات اور دن کی تبدیلی کا ایسا نظام ٹھہرایا ہے کہ) رات کی اندھیری دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے اور (ایسا معلوم ہوتا ہے گویا) دن کے پیچھے لپکی چلی آرہی ہو اور (دیکھو) سورج، چاند، ستارے سب اس کے حکم کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو ! اسی کے لیے پیدا کرنا ہے اور اسی کے لیے حکم دینا (اس کے سوا کوئی نہیں جسے کارخانہ ہستی کے چلانے میں دخل ہو) سو کیا ہی بابرکت ذات ہے اللہ کی تمام جہانوں کا پرورش کرنے والا۔
آسمان و زمین چھ دن میں پیدا کیے: یہ چھ دن اتوار، پیر، منگل، بدھ، جمعرات اور جمعہ ہیں۔ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، ہفتے والے دن کہتے ہیں کوئی تخلیق نہیں ہوئی اسی لیے اسے یوم السبت کہا جاتا ہے (سبت کے معنی قطع یا کاٹنے کے ہیں) یعنی اس دن تخلیق کا کام قطع یعنی ختم ہوگیا۔ دن سے مراد: یہاں دن سے مراد ہمارا چوبیس گھنٹے کا دن نہیں جو سورج سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ سورج تو اس وقت موجود ہی نہ تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ﴾ (الحج: ۴۷) ہاں اللہ کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے۔ اور فرمایا: ﴿فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ﴾ (المعارج: ۴) ’’ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے۔‘‘ لہٰذا یہاں چھ دن سے چھ ادوار ہی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد ہی چاند اور سورج کا نظام قائم ہوا تھا۔ علاوہ ازیں یہ عالم بالا کا واقعہ ہے جس کو دنیا سے کوئی نسبت نہیں، اس لیے اس دن کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اللہ تعالیٰ تو لفظ کُن سے سب کچھ پیدا کرسکتا ہے اس کے باوجود اس نے ہر چیز کو الگ الگ تدریج کے ساتھ بنایا، اس کی بھی اصل حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاہم بعض علماء کے نزدیک اس کی ایک حکمت لوگوں کو آرام، وقار، اور تدریج کے ساتھ کام کرنے کا سبق دینا بتلائی ہے۔ (واللہ اعلم) پھر عرش پر قرار پکڑا: اللہ تعالیٰ عرش پر بلند اور مستقر ہے۔ لیکن کس طرح، کس کیفیت کے ساتھ، اسے ہم بیان نہیں کرسکتے، نہ کسی کے ساتھ تشبیہ ہی دے سکتے ہیں۔ نعیم بن حمادکا قول ہے آپ حضرت امام بخاری کے استاد ہیں فرماتے ہیں جو شخص اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دے وہ کافر ہے۔ اور جو شخص اللہ کے اس وصف سے انکار کرے جو اس نے اپنی ذات پاک کے لیے بیان فرمایا ہے وہ بھی کافر ہے۔ اور اللہ کے بارے میں اسکی یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیا ن کردہ با ت کو بیان کرنا، تشبیہ نہیں۔ پس صحیح ہدایت کے راستے پر وہ ہی ہے جو باتیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں نص سے ثابت ہیں ان پر بلا تاویل اور بلا کیف و تشبیہ ایمان رکھنا ضروری ہے۔ (ابن کثیر: ۲/ ۳۵۷) رات کا دن کو ڈھانپنا: ان کے سمجھنے کے لیے ہماری ایک نشانی رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں، جس سے یہ اندھیرے میں آجاتے ہیں، اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف برابر جارہا ہے۔ یہ ہے اللہ کا مقرر کیا ہوا اندازہ۔ جو غالب اور علم والا ہے ہم نے چاند کی بھی منزلیں ٹھہرادی ہیں، یہ سب اللہ کے زیر فرمان اس کے ماتحت اور اسکے ارادے میں ہیں۔ ملک اور تصرف اسی کا ہے۔ وہ برکتوں والا اور تمام جہان کا پالنے والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِيْرًا﴾ (الفرقان: ۱) ’’بابرکت ہے وہ جس نے آسمان میں بُرج بنائے اور اس میں آفتاب بنایا اور منور آفتاب بھی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی نے کسی نیکی پر اللہ کی حمد نہ کی بلکہ اپنے نفس کو سراہا، اس نے کفر کیا، اور اسکے اعمال غارت ہوئے، اور جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ نے کچھ اختیارات اپنے بندوں کو بھی دیے ہیں تو اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمایا ہے ۔ (تفسیر طبری: ۱۲/ ۴۸۶) رسول اللہ کی دعا: یا اللہ سارا ملک تیرا ہی ہے سب حمد تیرے ہی لیے ہے سب کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں، میں تجھ سے تمام بھلائیاں طلب کرتا ہوں اور ساری برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ (مسند احمد: ۵/ ۳۹۶)