هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ قَدْ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
(پھر) کیا یہ لوگ اس بات کے انتظار میں ہیں کہ (فساد و بدعملی کے جس نتیجہ کی اس میں خبر دی گئی ہے) اس کا مطلب وقوع میں آجائے؟ (اگر اسی بات کا انتظار ہے تو جان رکھیں) جس دن اس کا مطلب وقوع میں آئے گا اس دن وہ لوگ کہ اسے پہلے سے بھولے بیٹھے تھے (نامرادی و حسرت کے ساتھ) بول اٹھیں گے، بلا شبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر ہمارے پاس سچائی کا پیام لے کر آئے تھے (مگر افسوس کہ ہم نے انہیں جھٹلایا) کاش شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہو جو آج ہماری شفاعت کرے ! یا کاش ایسا ہی ہو کہ ہم پھر دنیا میں لوٹا دیئے جائیں اور جیسے کچھ کام کرتے رہے ہیں اس کے برخلاف (نیک) کام انجام دیں، بلا شبہ ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنے کو تباہی میں ڈالا اور دنیا میں جو کچھ افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب (آج) ان سے کھوئی گئیں۔
قرآن کریم میں آخرت کی ساری خبریں بتادی گئی تھیں یعنی جنت کے وعدے اور دوزخ کا بیان لیکن یہ اس دنیا کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے منتظر تھے۔ اور انجام سامنے آجانے کے بعد اعتراف حق کرتے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حق لیکر آئے تھے پھر وہ سفارشی ڈھونڈیں گے، یا دنیا میں واپس بھیج دینے کی سفارش کریں گے جب اہل جہنم اورا ہل جنت اپنے اپنے مقام پر پہنچ جائیں گے۔ غفلت کا پردہ چاک ہوجائے گا، اس دن کچھ فائدہ نہیں ہوگا، اس دن وہ معبود بھی ان سے گم ہوجائیں گے جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، انسان جس دنیا میں مشغول ہوتا ہے اسی پر بھروسہ کرتاہے پھر دنیا بھی چلی جاتی ہے اور آخرت کے لیے بھی کچھ پاس نہیں ہوتا۔