الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَهْوًا وَلَعِبًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ فَالْيَوْمَ نَنسَاهُمْ كَمَا نَسُوا لِقَاءَ يَوْمِهِمْ هَٰذَا وَمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ
(کیونکہ وہ فرماتا ہے) جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا تھا (یعنی عمل حق کی جگہ ایسے کاموں میں لگے رہے جو کھیل تماشے کی طرح حقیقت سے خالی تھے) اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالے رکھا تو جس طرح انہوں نے اس دن کا آنا بھلا دیا تھا آج وہ بھی بھلا دیئے جائیں گے نیز اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں سے جان بوجھ کر انکار کرتے تھے۔
قیامت والے دن اللہ اس قسم کے بندے سے کہے گا جس نے دنیا میں دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا تھا۔ ’’کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دیے تھے۔ تجھے عزت و اکرام سے نہیں نوازا تھا۔ کیا اونٹ اور گھوڑے تیرے تابع نہیں کردیے تھے۔ اور کیا تو سرداری کرتے ہوئے لوگوں سے چنگی وصول نہیں کرتا تھا۔‘‘ وہ کہے گا: کیوں نہیں اے اللہ یہ سب باتیں صحیح ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا۔ کیا تو میری ملاقات کا یقین رکھتا تھا۔ وہ کہے گا نہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’پس جس طرح تو مجھے بھولا رہا آج میں تجھے بھول جاتا ہوں۔‘‘ (مسلم: ۲۹۶۸، ابن حبان: ۷۴۴۵) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کو لہو ولعب بنانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کے فریب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دلوں سے چونکہ آخرت کی فکر اور اللہ کا خوف نکل جاتا ہے اس لیے وہ دین میں بھی اپنی طرف سے جو چاہتے ہیں اضافہ کرلیتے ہیں اور دین کے جس حصے کو چاہتے ہیں اسے کھیل کود کا رنگ دے دیتے ہیں دین میں بدعات کا اضافہ کرکے انہی کو اصل اہمیت دینا جیسا کہ اہل بدعت کا شیوا ہے اس سے دین کھیل تماشا بن کر رہ جاتا ہے۔ اور اللہ کے احکام و فرائض پر عمل کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس چیز سے میں تمہیں روک دوں اُس سے رک جاؤ اور جسکا حکم دوں اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو۔‘‘ (مسلم: ۱۳۳۷، مسند احمد: ۲/ ۲۴۷، ح: ۷۳۶۷)