إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی تو (یاد رکھو) ان کے لیے آسمان کے دروازے کبھی کھلنے والے نہیں۔ ان کا جنت میں داخل ہونا ایسا ہے جیسے سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا، اسی طرح ہم مجرموں کو ان کے جرموں کا بدلہ دیتے ہیں (یعنی ہم نے اسی طرح قانون جزا ٹھہرا دیا ہے۔
بدکاروں کی روحیں دھتکاری جاتی ہیں: کافروں کے نہ تو نیک اعمال اللہ کی طرف چڑھیں گے، نہ ان کی دعائیں قبول ہوں گی اور نہ ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے ہی کھلیں گے۔ یعنی جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا ناممکن ہے ویسے ہی شیطان سیرت آدمیوں کا داخلہ جنت میں ناممکن ہے ایسے لوگوں کی روح کو جب فرشتے لیکر آسمان کی طرف جاتے ہیں تو آسمان کا دروازہ کھولا ہی نہیں جاتا۔ اور ان کی روحوں کو وہیں سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے اور قبر کے امتحان میں ناکامی کے بعد سجین میں قید کردیا جاتا ہے۔ مومن کے ساتھ فرشتوں کا برتاؤ ۔ مسند احمد میں یہ طویل حدیث موجود ہے۔