وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اللہ وہ ہے جس نے باغات پیدا کیے جن میں سے کچھ (بیل دار ہیں جو) سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں، اور کچھ سہاروں کے بغیر بلند ہوتے ہیں، اور نخلستان اور کھیتیاں، جن کے ذائقے الگ الگ ہیں، اور زیتون اور انار، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ (٧٢) جب یہ درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھانے میں استعمال کرو، اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو، (٧٣) اور فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو، وہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
72: تشریح کے لیے دیکھئے پیچھے آیت نمبر 99 کا حاشیہ 73: اس سے مراد عشر ہے جو زرعی پیداوار پر واجب ہوتا ہے مکی زندگی میں اس کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں تھی، بلکہ جب کٹائی کا وقت آتا تو کھیتی کے مالک پر فرض تھا کہ جو فقراء اس وقت موجود ہوں ان کو اپنی صوابدید کے مطابق کچھ دے دیا کرے، مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد اس کے مفصل احکام آئے اور آنحضرتﷺ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ بارانی زمینوں پر پیداوار کا دسواں حصہ اور نہری زمینوں پر بیسواں حصہ غریبوں کا حق ہے، آیت نے بتایا ہے کہ یہ حق کٹائی ہی کے وقت ادا کردینا چاہئے۔