وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور اللہ نے جو کھیتیاں اور چوپائے پیدا کیے ہیں ِ ان لوگوں نے ان میں سے اللہ کا بس ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ (٦٦) چنانچہ بزعم خود یوں کہتے ہیں کہ یہ حصہ تو اللہ کا ہے، اور یہ ہمارے ان معبودوں کا ہے جن کو ہم خدائی میں اللہ کا شریک مانتے ہیں۔ پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے، وہ تو (کبھی) اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، اور جو حصہ اللہ کا ہوتا ہے، وہ ان کے گھڑے ہوئے معبودوں کو پہنچ جاتا ہے۔ ایسی بری بری باتیں ہیں جو انہوں نے طے کر رکھی ہیں۔
66: یہاں سے آیت نمبر : ١٤٤ تک عرب کے مشرکین کی کچھ بے بنیاد رسموں کا بیان ہے، ان لوگوں نے کسی معقول اور علمی بنیاد کے بغیر مختلف کاموں کو من گھڑت اسباب کی بنیاد پر حلال یا حرام قرار دے رکھا تھا، مثلاً خود اپنی اولاد کو انتہائی سنگ دلی سے قتل کردیتے تھے، اگر لڑکی پیدا ہوئی تو اسے اپنے لئے بڑی شرم کی بات سمجھ کر اسے زندہ زمین میں دفن کردیتے تھے، بعض لوگ اس وجہ سے بھی لڑکیوں کو دفن کردیتے تھے کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اس لئے انسانوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ لڑکیاں رکھیں، لڑکوں کو بعض اس وجہ سے قتل کرڈالتے تھے کہ ان کو کہاں سے کھلائیں گے، اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یہ نذر مان لیتے تھے کہ ہمارا جو دسواں لڑکا ہوگا اسے اللہ یا بتوں کے نام پر ذبح کردیں گے، اس کے علاوہ اپنے مویشیوں اور کھیتوں کی پیداوار کے بارے میں بھی عجیب وغریب عقیدے گھڑ رکھے تھے، ان میں سے ایک کا بیان اس آیت میں ہے اور وہ یہ کہ اپنے کھیتوں کی پیداوار اور مویشیوں کے دودھ یا گوشت میں سے کچھ حصہ تو اللہ کے نام رکھتے تھے (جو مہمانوں اور غریبوں میں تقسیم کیلئے ہوتا تھا) اور ایک حصہ اپنے بتوں کے نام کا نکالتے تھے جو بت خانوں پر چڑھا یا جاتا تھا اور اس سے بت خانوں کے نگراں فائدہ اٹھاتے تھے، اول تو یہ بات ہی بیہودہ تھی کہ اللہ کے ساتھ بتوں کو شریک کرکے ان کے نام پرپیداوار کا کچھ حصہ رکھا جائے، اوپر سے ستم ظریفی یہ تھی کہ جو حصہ اللہ کے نام کا رکھا تھا اگر اس میں سے کچھ بتوں والے حصے میں چلا جاتا تو کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، البتہ اگر بتوں کے حصے میں سے کوئی چیز اللہ کے نام کے حصے میں چلی جاتی تو اسے فوراً واپس کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔