وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ
اور پھر و (وہ معاملہ یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے تم سے عہد لیا تھا : آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو (یعنی اپنی جماعت کے افراد کو) جلا وطن کرو گے۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم (اب بھی) یہ بات مانتے ہو۔
پیروان مذاہب کی گمراہی کی وہ حالت، جبکہ اتباع دین کی روح یک قلم مفقود ہوجاتی ہے، اور دینداری کی نمائش صرف اس لیے کی جاتی ہے تاکہ نفسانی خواہشوں اور کام جوئیوں کے لیے اسے آلہ کار بنایا جائے۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شریعت کے بنیادی اور اصولی احکام پر تو کوئی توجہ نہیں کرتا۔ لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو نمائش اور ریاکاری کا ذریعہ ہوسکتی ہیں اور جن کے کرنے میں کچھ چھوڑنا اور کھونا نہیں پڑتا، بہت زور دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر ان اصولی باتوں پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا جاتا تو یہ فروعی خلاف ورزیاں ظہور ہی میں نہ آتیں۔ علمائے یہود اسی گمراہی میں مبتلا تھے