وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ
اور ان (کافر) لوگوں نے جب یہ کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا تو انہوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں پہچانی۔ (٣٣) (ان سے) کہو کہ : وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جو موسیٰ لے کر آئے تھے، جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، اور جس کو تم نے متفرق کاغذوں کی شکل میں رکھا ہوا ہے۔ (٣٤) جن (میں سے کچھ) کو تم ظاہر کرتے ہو، اور بہت سے حصے چھپا لیتے ہو، اور (جس کے ذریعے) تم کو ان باتوں کی تعلیم دی گئی تھی جو نہ تم جانتے تھے، نہ تمہارے باپ دادا؟ (اے پیغمبر ! تم خود ہی اس سوال کے جواب میں) اتنا کہہ دو کہ : وہ کتاب اللہ نے نازل کی تھی۔ پھر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو کہ یہ اپنی بے ہودہ گفتگو میں مشغول رہ کر دل لگی کرتے رہیں۔
33: یہاں سے بعض یہودیوں کی تردید مقصود ہے، آنحضرتﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مرتبہ ان کے ایک سردار مالک بن صیف نے غصے میں آکر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا۔ 34: یعنی پوری کتاب کو ظاہر کرنے کے بجائے تم نے اسے حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ جو حصے تمہارے مطلب کے مطابق ہوتے ہیں ان کو تو عامل لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتے ہو، مگر جو حصے تمہارے مفادات کے خلاف ہوتے ہیں، انہیں چھپا لیتے ہو۔