وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اور (پھر یہ ہوا کہ) ان کی قوم نے ان سے حجت شروع کردی۔ (٢٩) ابراہیم نے (ان سے) کہا : کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو جبکہ اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے ؟ اور جن چیزوں کو تم اللہ کے ساتھ شریک مانتے ہو، میں ان سے نہیں ڈرتا (کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچا دیں گی) الا یہ کہ میرا پروردگار (مجھے) کچھ (نقصان پہنچانا) چاہے (تو وہ ہر حال میں پہنچے گا) میرے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کیا تم پھر بھی کوئی نصیحت نہیں مانتے؟
29: سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حجت کرتے ہوئے ان کی قوم نے دو باتیں کہیں، ایک یہ کہ ہم برسوں سے اپنے باپ داداؤں کو ان بتوں اور ستاروں کی پوجا کرتے دیکھ رہے تھے، ان سب کو گمراہ سمجھنا ہمارے بس سے باہر ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کا جواب پہلے جملے میں یہ دیا ہے کہ ان باپ داداؤں کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نہیں آئی تھی اور مذکورہ بالا عقلی دلائل کے علاوہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی ہے، لہذا اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے بعد میں شرک کو کیسے درست تسلیم کرسکتا ہوں، دوسری بات ان کی قوم نے یہ کہی ہوگی کہ اگر تم نے ہمارے بتوں اور ستاروں کی خدائی سے انکار کیا تو وہ تمہیں تباہ کرڈالیں گے، اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ میں ان بے بنیاد دیوتاؤں سے نہیں ڈرتا بلکہ ڈرنا تمہیں چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے بنیاد دیوتاؤں کو اس کی خدائی میں شریک مان رہے ہو، نقصان اگر پہنچا سکتا ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے کوئی اور نہیں اور جو لوگ اس کی توحید پر ایمان لاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ نے امن اور چین عطا فرمایا ہے۔