وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ
اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، (٢٦) اور جس دن وہ (روز قیامت سے) کہے گا کہ : تو ہوجا تو وہ ہوجائے گا۔ اس کا قول برحق ہے۔ اور جس دن صورت پھونکا جائے گا، اس دن بادشاہی اسی کی ہوگی (٢٧) وہ غائب و حاضر ہر چیز کو جاننے والا ہے، اور وہی بڑی حکمت والا، پوری طرح باخبر ہے
26: یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک برحق مقصد سے پیدا کیا ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ جو لوگ یہاں اچھے کام کریں انہیں انعام سے نوازا جائے اور جو لوگ بدکار اور ظالم ہوں انہیں سزا دی جائے یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہو جس میں جزا اور سزا کا یہ مقصد پورا ہو اور آگے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس مقصد کے لئے قیامت میں لوگوں کو دوبارہ زندگی دینا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے، جب وہ چاہے گا تو قیامت کو وجود میں آنے کا حکم دے گا اور وہ وجود میں آجائے گی اور چونکہ وہ غائب وحاضر ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے اس لئے لوگوں کو مرنے کے بعد اکھٹا کرنا بھی اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے البتہ چونکہ وہ حکمت والا ہے اس لئے وہ اسی وقت قیامت قائم فرمائے گا جب اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا۔ 27: اگرچہ دنیا میں حقیقی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ لیکن یہاں ظاہری طور پر بہت سے حکمران مختلف ملکوں پر حکومت کرتے ہیں، لیکن صورت پھونکے جانے کے بعد یہ ظاہری حکومتیں بھی ختم ہوجائیں گی، اور ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی۔