بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَاءَ وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ
بلکہ اسی کو پکارو گے، پھر جس پر یشانی کے لیے تم نے اسے پکارا ہے، اگر وہ چاہے گا تو اسے دور کردے گا، اور جن (دیوتاؤں) کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو (اس وقت) ان کو بھول جاؤ گے۔ (١٤)
14: عرب کے مشرکین یہ مانتے تھے کہ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ؛ لیکن ساتھ ہی ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس کی خدائی میں دوسرے بہت سے دیوتا اس طرح شریک ہیں کہ خدائی کے بہت سے اختیارات ان کو حاصل ہیں، اب ہوتا یہ تھا کہ ان دیوتاؤں کو خوش رکھنے کی نیت سے ان کی پرستش کرتے رہتے تھے مگر جب کوئی ناگہانی آفت آپڑتی تھی مثلاً سمندر میں سفر کرتے ہوئے پہاڑ جیسی موجوں میں گھر جاتے تھے تو اپنے گھڑے ہوئے دیوتاؤں کے بجائے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے، یہاں ان کی اس عادت کے حوالے سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ جب دنیا کی ان مصیبتوں میں تم اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو تو اگر کوئی بڑا عذاب آجائے قیامت ہی آکھڑی ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہی کو پکاروگے۔