يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
وہ دن یاد کرو جب اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا، اور کہے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں، پوشیدہ باتوں کا تمام تر علم تو آپ ہی کے پاس ہے۔ (٧٥)
75: قرآن کریم کا یہ خاص طریقہ ہے کہ جب وہ اپنے احکام بیان فرماتا ہے تو اس کے ساتھ آخرت کا کوئی ذکر یا پچھلی امتوں کی فرماں برداری یا نافرمانی کا بھی ذکر فرماتا ہے، تاکہ ان احکام پر عمل کرنے کے لیے آخرت کی فکر پیدا ہو، چنانچہ وصیت کے مذکورہ بالا احکام کے بعد اب آخرت کے کچھ مناظر بیان فرمائے گئے ہیں، اور چونکہ کچھ پہلے عیسائیوں کے غلط عقائد کا تذکرہ تھا، اس لیے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے آخرت میں جو مکالمہ ہوگا اس کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور شروع کی اس آیت میں تمام پیغمبروں سے اس سوال کا ذکر ہے کہ ان کی امتوں نے ان کی دعوت کا کیا جواب دیا تھا؟ اس کے جواب میں انہوں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دیا میں تو لوگوں کے ظاہری بیانات پر ہی فیصلہ کرنے کے مجاز تھے، لہذا جس کسی نے ایمان کا دعویٰ کیا ہم نے اسے معتبر سمجھ لیا، لیکن یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ اس کے دل میں کیا ہے؟ آج جبکہ فیصلہ دلوں کے حال کے مطابق ہونے والا ہے، ہم یقین کے ساتھ کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ دلوں کا پوشیدہ حال تو صرف آپ ہی جانتے ہیں۔ البتہ جب لوگوں کے ظاہری رد عمل ہی کے بارے میں انبیاء کرام سے گواہی لی جائے گی تو وہ ان کے ظاہری اعمال کی گواہی دیں گے، جس کا ذکر سورۃ نساء (41:4) اور سورۃ نحل (89:16) وغیرہ میں آیا ہے۔