قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
(اور ان سے یہ بھی کہو کہ) اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو (٥٣) اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوئے، بہت سے دوسروں کو بھی گمراہ کیا، اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔
53: ” غلو“ کا مطلب ہے کسی کام میں اس کی معقول حدود سے آگے بڑھ جانا۔ عیسائیوں کا غلو یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعظیم میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہیں خدا قرار دے دیا، اور یہودیوں کا غلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے محبت کا جو اظہار کیا تھا اس کی بنا پر یہ سمجھ بیٹھے کہ دنیا کے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر بس وہی اللہ کے چہیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ جو چاہیں کریں، اللہ تعالیٰ ان سے ناراض نہیں ہوگا، نیز ان میں سے بعض نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے لیا تھا۔