قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ
اللہ نے کہا : اچھا تو وہ سرزمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے، یہ (اس دوران) زمین میں بھٹکتے پھریں گے (٢١) تو (اے موسی) اب تم بھی ان نافرمان لوگوں پر ترس مت کھانا۔
21: بنی اسرائیل کی اس نافرمانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ چالیس سال تک فلسطین میں ان کا داخلہ بند کردیا گیا، یہ لوگ صحرائے سینا کے ایک مختصر علاقے میں بھٹکتے رہے، نہ آگے بڑھنے کا راستہ ملتا تھا نہ پیچھے مصر واپس جانے کا، حضرت موسی، حضرت ہارون، حضرت یوشع اور حضرت کالب علیہم السلام بھی ان لوگوں کے ساتھ تھے اور انہی کی برکت اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ان پر نازل ہوئیں، جن کا ذکر پیچھے سورۂ بقرہ (آیات ٥٧ تا ٦٠) میں گزرچکا ہے، بادل کے سائے نے انہیں دھوپ سے بچایا، کھانے کے لئے من وسلوی نازل ہوا، پینے کے لئے پتھر سے بارہ چشمے پھوٹے، بنی اسرائیل کے لئے خانہ بدوشی کی یہ زندگی ایک سزا تھی ؛ لیکن ان بزرگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو قلبی راحت کا سامان بنادیا، حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی یکے بعد دیگرے اسی صحرا میں وفات ہوئی، بعد میں حضرت یوشع (علیہ السلام) پیغمبر بنے اور شام کا کچھ علاقہ ان کی سر کردگی میں اور کچھ حضرت سموئیل (علیہ السلام) کے زمانے میں طالوت کی سر کردگی میں فتح ہوا جس کا واقعہ سورۃ بقرہ (آیات ١٤٢ تا ١٥٢) میں گزرچکا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ سرزمین بنی اسرائیل کے حق میں لکھنے کا جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔