وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ
اور پھر (دیکھو تمہاری تاریخ حیات کا وہ واقعہ بھی کس درجہ عبرت انگیز ہے) جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا ہم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی طرح کے کھانے پر قناعت کرلیں، پس اپنے پروردگار سے دعا کرو ہمارے لیے وہ تمام چیزیں پیدا کردی جائیں جو زمین کی پیداوار ہیں۔ سبزی، ترکاری، گھیہوں، دال، پیاز، لہسن وغیرہ (جو مصر میں ہم کھایا کرتے تھے) موسیٰ نے یہ سن کر کہا (افسوس تمہاری غفلت اور بے حسی پر !) کیا تم چاہتے ہو ایک ادنی سی بات کے لیے (یعنی غذا کی لذت کے لیے) اس (مقصد عظیم) سے دست بردار ہوجاؤ جس میں بڑی ہی خیر و برکت ہے؟ (یعنی قومی آزادی و سعادت سے؟ اچھا اگر تمہاری غفلت و بدبختی کا یہی حال ہے تو) یہاں سے نکلو، شہر کی راہ لو، وہاں یہ تمام چیزیں مل جائیں جن کے لیے ترس رہے ہو۔ بہرحال بنی اسرائیل پر خواری و نامرادی کی مار پڑی اور خدا کے غضب کے سزاوار ہوئے اور یہ اس لیے ہوا کہ خدا کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور اس کے نبیوں کے ناحق قتل میں بے باک تھے، اور (گمراہی و شقاوت کی یہ روح ان میں) اس لیے (پیدا ہوگئی) کہ (اطاعت کی جگہ) سرکشی سما گئی تھی اور تمام حدیں توڑ کر بے لگام ہوگئے تھے !
محکومی و غلامی سے قوم کا اخلاق پست ہوجاتا ہے اور بلندمقاصد کے لیے جوش و عزم باقی نہیں رہتا۔ بنی اسرائیل فراعنہ مصر کی غلامی سے آزاد ہوگئے تھے۔ اور قومی عظمت کا مستقبل ان کے سامنے تھا، لیکن وہ ان حقیر راحتوں کے لیے ترستے تھے جو مصر کی غلامانہ زندگی میں میسر تھیں، اور وہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں شاق گذرتی تھیں جو آزادی و عظمت کی راہ میں پیش آتی تھیں۔