وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ
قسم ہے برجوں والے آسمان کی (١)۔
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمانوں کو ظلم وستم کے ذریعہ سے ایمان سے پھیرنے کی پوری شدت کے ساتھ تحریک جاری تھی لہذا اس سورۃ میں حالات کے مطابق ایک طرف تو مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے اور دوسری طرف کفار کو ان کے ظلم وستم کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اصحاب الاخدود کا واقعہ سنایا گیا ہے کہ انہوں نے اہل ایمان پر ظلم وستم ڈھائے اور ان کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک دیا۔ آگ کے گڑھوں میں جلانے سے متعلق متعدد قصے بیان کیے گئے ہیں جن میں سب سے مشہور واقعہ نجران کا ہے کہ حمیر کے بادشاہ نے یثرب کے یہودیوں سے متاثر ہو کر یہودیت قبول کرلی اور مدینہ سے دو یہودی عالم ساتھ لے گیا اور یمن میں یہودیت کی خوب اشاعت کی اس کا بیٹاذونواس اس کا جانشین ہوا اس نے نجران پر حملہ کیا تاکہ وہاں عیسائیت کو ختم کردے نجران میں اس نے یہودیت کی طرف دعوت دی مگر انہوں نے انکار کردیا اس پر اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ڈال کر جلوادیا اور کچھ کو قتل کردیا، الغرض مجموعی طور پر ٢٠ ہزار آدمی قتل ہوگئے اہل نجران سے ایک شخص نے شاہ روم یا شاہ حبش کے پاس جاکر اس ظلم کی شکایت کی آخرکار حبش کی ستر ہزار فوج ان پر حملہ آور ہوئی اور یمن کو فتح کرکے حبش کی سلطنت کا ایک حصہ بنالیا۔ اس روایت کی دوسرے تاریخی ذرائع سے بھی تائید ہوتی ہے یمن پر حبش کے عیسائیوں کا قبضہ ٣٤٠ ء، سے ٣٧٨ تک قائم رہا، اس عرصہ میں عیسائی مشنری یمن میں داخل ہونا شروع ہوئے اور ایک عیسائی سیاح فیمون نامی کی تبلیغ سے اہل نجران عیسائی ہوگئے ان کے سردار تین تھے، سید عاقب اور اسقف، یہ تیسرا مذہبی پیشوا ہوتا تھا۔ جنوبی عرب میں نجران کی بہت اہمیت حاصل تھی یہ ایک تجارتی اور صنعتی مرکز تھا چنانچہ سیاسی اور معاشی وجوہ کی بنا پر ذونواس یمنی نے اس پر حملہ کیا اور آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں مرد، عورت، بچے وربوڑھے لوگوں کو پھینکوا دیا مجموعی طور پر مقتولین کی تعداد چالیس ہزار بیان کی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں ٥٢٥ ء میں حبشیوں نے یمن پر حملہ کرکے ذونواس اور اس حمیری سلطنت کا خاتمہ کردیا اس کی تصدیق، حصن غراب، کے کتبے سے ہوتی ہے جو یمن میں موجودہ زمانے کے محقیقین آثار قدیمہ کو ملا ہے۔ حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ کی ایک شکل کی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبہ کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے اس کے اساقفہ عمامے باندھتے تھے اور اس کو حرم قرار دیا گیا تھا چنانچہ اسی کعبہ کے پادری اپنے سید، عاقب اور اسقف کی قیادت میں مناظرے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مباہلہ کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورۃ آل عمران آیت ٦١ میں کیا گیا ہے۔