أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے (مکی زندگی میں) کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روک کر رکھو، اور نماز قائم کیے جاؤ اور زکوۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ان میں سے ایک جماعت (دشمن) لوگوں سے ایسی ڈرنے لگی جیسے اللہ سے ڈرا جاتا ہے، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنے لگی، اور ایسے لوگ کہنے لگے کہ : اے ہمارے پروردگار ! آپ نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، تھوڑی مدت تک ہمیں مہلت کیوں نہیں دی؟ کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تو تھوڑا سا ہے اور جو شخص تقوی اختیار کرے اس کے لیے آخرت کہیں زیادہ بہتر ہے، (٤٧) اور تم پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔
47: مکہ مکرمہ میں جب مسلمان کفار کے سخت ظلم وستم کا سامنا کررہے تھے اس وقت بہت سے حضرات کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ ان کافروں سے انتقام لینے کے لئے جنگ کریں، لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں آیا تھا، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی مصلحت اس میں تھی کہ وہ صبر وضبط کی بھٹی سے گزر کر اعلی اخلاق سے آراستہ ہوں اور پھر جہاد کریں تو وہ محض ذاتی انتقام کے جذبے سے نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر ہو لہذا اس وقت جب کچھ مسلمان جہاد کی تمنا کرتے ان سے یہی کہا جا ات تھا کہ ابھی اپنے ہاتھ روک کر رکھو اور جہاد کے بجائے نماز اور زکوۃ وغیرہ کے احکام پر عمل کرتے رہو، بعد میں جب یہ حضرات ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے توجہاد فرض ہوا، اس وقت چونکہ ان کی پرانی تمنا پوری ہوگئی تھی، اس لئے انہیں خوش ہونا چاہئے تھا، لیکن ان میں سے بعض حضرات کے دل میں یہ خیال آیا کہ تقریباً تیرہ سال کی صبر آزما تکلیفوں کے بعد اب ذرا سکون اور عافیت کی زندگی میسر آئی ہے اس لئے جہاد کا حکم کچھ مزید مؤخر ہوجاتا تو اچھا تھا، ان کی یہ خواہش اللہ تعالیٰ کے حکم پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ بشریت کا ایک تقاضا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس پر تنبیہ فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ کے برگزیدہ صحابہ کا مقام اس بات سے بلند ہونا چاہئے کہ وہ کسی وقت دنیاوی راحت وآرام کو اتنی اہمیت دیں کہ اس کے خاطر آخرت کے فوائد کو کچھ عرصے کے لئے ہی سہی مؤخر کرنے کی آرزو کرنے لگیں۔