سورة النسآء - آیت 51

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن لوگوں کو کتاب (یعنی تورات کے علم) میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا، کیا تم نے انکو نہیں دیکھا کہ وہ (کس طرح) بتوں اور شیطان کی تصدیق کر رہے ہیں اور کافروں (یعنی بت پرستوں) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مومنوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ (٣٧)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

37: یہ مدینہ منورہ میں آباد بعض یہودیوں کا تذکرہ ہے، آنحضرتﷺ نے ان سب کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ اور مسلمان آپس میں امن کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف کسی بیرونی دشمن کی مدد بھی نہیں کریں گے ؛ لیکن انہوں نے اس معاہدہ کی بار بار خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کے دشمن کفار مکہ کی حمایت اور درپردہ مدد کا سلسلہ جاری رکھا، ان کا ایک بڑا سردار کعب بن اشرف تھا، جنگ احد کے بعد وہ ایک اور یہودی سردار حیی بن اخطب کے ساتھ مکہ مکرمہ کے کافروں کے پاس گیا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف تعاون کی پیشکش کی، کفار مکہ کے سردار ابو سفیان نے کہا کہ اگر واقعی اپنی پیشکش میں سچے ہو تو ہمارے دو بتوں کے سامنے سجدہ کرو ؛ چنانچہ کعب بن اشرف نے ابوسفیان کا یہ مطالبہ بھی مان لیا، پھر ابوسفیان نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا مذہب اچھا ہے یا مسلمانوں کا، تو اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے زیادہ بہتر ہے، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مکہ کے یہ لوگ بت پرست ہیں اور کسی آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے، لہذا ان کے مذہب کو بہتر قرار دینے کا مطلب بت پرستی کی تصدیق کرنا تھا، اس آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔