سورة النسآء - آیت 46

مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہودیوں میں سے کچھ وہ ہیں جو (تورات) کے الفاظ کو ان کے موقع محل سے ہٹا ڈالتے ہیں، اور اپنی زبانوں کو توڑ مروڑ کر اور دین میں طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے ہیں : سمعنا وعصینا۔ اور اسمع غیر مسمع۔ اور راعنا۔ حالانکہ اگر وہ یہ کہتے کہ : سمعنا واطعنا اور اسمع وانظرنا۔ تو ان کے لیے بہتر اور راست بازی کا راستہ ہوتا (٣٣) لیکن ان کے کفرکی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے، اس لیے تھوڑے سے لوگوں کے سوا وہ ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

33: اس آیت میں بعض یہودیوں کی دو شرارتوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک شرارت یہ ہے کہ وہ تورات کے الفاظ کو اپنے موقع محل سے ہٹاکر اس میں لفظی یا معنوی تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں، یعنی بعض اوقات اس کے الفاظ ہی کو کسی اور لفظ سے بدل دیتے ہیں اور بعض اوقات اس لفظ کو غلط معنی پہنا کر اس کی من مانی تفسیر کرتے ہیں اور دوسری شرارت یہ ہے کہ جب وہ آنحضرتﷺ کے پاس آتے ہیں تو ایسے مبہم اور منافقانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا ظاہری مفہوم برا نہیں ہوتا ؛ لیکن وہ اندرونی طور پر ان الفاظ سے وہ دوسرے معنی مراد لیتے ہیں جو ان الفاظ میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں، قرآن کریم نے اس کی تین مثالیں اس آیت میں ذکر کی ہیں، ایک یہ کہ وہ کہتے ہیں سمعنا وعصینا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اور نافرمانی کی، وہ ان الفاظ کا مطلب یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم نے آپ کی بات سن لی ہے اور آپ کے مخالفین کی نافرمانی کی ؛ لیکن اندر سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اور اسی بات کی نافرمانی کی ہے، دوسرے وہ کہتے تھے اسمع غیر مسمع اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ آپ ہماری بات سنیں خدا کرے آپ کو کوئی بات سنائی نہ جائے ظاہری طور پر وہ یہ دعا دیتے تھے کہ آپ کو کوئی ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کی طبیعت کی خلاف ہو، لیکن اندر سے ان کا مطلب ہوتا تھا کہ خدا کرے آپ کو ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کو خوش کرے، تیسرے وہ ایک لفظ راعنا استعمال کرتے تھے جس کے معنی عربی زبان میں تو یہ ہیں کہ ہمارا خیال رکھئے لیکن عبرانی زبان میں یہ ایک گالی کا لفظ تھا جو وہ اندرونی طور پر مراد لیتے تھے۔