سورة النسآء - آیت 6

وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یتیموں کو جانچتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے لائق عمر کو پہنچ جائیں، تو اگر تم یہ محسوس کرو کہ ان میں سمجھ داری آچکی ہے تو ان کے مال انہی کے حوالے کردو۔ اور یہ مال فضول خرچی کر کے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں۔ اور (یتیموں کے سرپرستوں میں سے) جو خود مال دار ہو وہ تو اپنے آپ کو (یتیم کا مال کھانے سے) بالکل پاک رکھے، ہاں اگر وہ خود محتاج ہو تو معروف طریق کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کھا لے۔ (٦) پھر جب تم ان کے مال انہیں دو تو ان پر گواہ بنا لو، اور اللہ حساب لینے کے لیے کافی ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

6: یتیموں کے سرپرست کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے بہت سی خدمات انجام دینی پڑتی ہیں، عام حالات میں جب سرپرست خود کھاتا پیتا شخص ہو اس کے لئے ان خدمات کا کوئی معاوضہ لینا درست نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتا ہے ؛ لیکن اگر وہ خود تنگدست ہے اور یتیم کی ملکیت میں اچھا خاصا مال ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنا ضروری خرچ بھی یتیم کے مال سے لے لے، مگر پوری احتیاط سے اتنا ہی لے جتنا عرف اور رواج کے مطابق ضروری ہے اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔