وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ
اور وہی خدا تو ہے کہ جب وہ خشک موسم میں لوگ بارش کی طرف سے بالکل ناامید اور مایوس ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی رحمت سے بادلوں کو پھیلا دیتا ہے اور مینہ برسنا شروع ہوجاتا ہے وہی کارساز حقیقی سزاوار حمد وتقدیس ہے (١٠)۔
(١٠) آیت ٢٨ میں مینہ برسانے کو اللہ کی رحمت قرار دیا ہے کیونکہ اس سے زمین کی آبادی ہے اور بارش بھی اللہ کے حکم واختیار میں ہے جاہلیت میں لوگ بارش کوستاروں کی تاثیر قرار دیتے حدیث قدسی میں ہے کہ اس قسم کا عقیدہ شرک ہے۔ قرآن مجید میں آثار وقدرت الٰہی کو بیان کرتے ہوئے بارش کے نزول اور زمین کی حیات نباتاتی پر جابجازور دیا گیا ہے مگر فی الحقیقت یہ ایک تمثیل ہے جس کے ذریعے سے ہر طرح کی اخلاقی وروحانی ہلاکت اور حیات بخشی کا سمجھانا مقصود ہے۔ عربی میں یاس اور قنوط ناامید کے معنی میں مترادف ہے مگر قنوط کا اطلاق اس ناامید پر ہوتا ہے جو یاس سے بھی زیادہ سخت شدید ہو نیز جس میں نیک توقعات سے مایوسی ہو۔