وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا
اگر وہ لوگوں کو ان کے ظلم وزیادتی کی پاداش میں پکڑتا تو روئے زمین پر کسی جاندار ہستی کو باقی نہ چھوڑتا لیکن (یہ اس کا قانون ہے کہ وہ اپنے ہر کام کواسباب وعمل کی ترتیب اور طبعی تدریج کے ساتھ انجام دیتا ہے) وہ ایک مقررہ وقت تک ظالموں کو مہلت دیتا ہے پھر جب ان کا وقت آپہنچتا ہے تو (تم خودبخود انقلاب حالت دیکھ لو گے) بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں (کے ہر نیک وبد عمل) کو دیکھ رہا ہے (١٢)۔
(١٢) یعنی اگر بنی آدم کے اعمال پر فوری گرفت ہوتی تو کوئی متنفس زمین پر باقی نہ رہتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ڈھیل دے رکھی ہے اور جزائے اعمال کے لیے ایک وقت مقرر کردیا ہے۔ اگر تدریج وامہال کی یہ فرصتیں اور بخششیں نہ ہوتیں تودنیا میں ایک وجود بھی فرصت حیات سے فائدہ نہ اٹھاسکتا، ہر غلطی ہر کمزوری، ہر نقصان، ہرفساد اچانک، بیک دفعہ بربادی وہلاکت کا باعث ہوجاتا۔ واللہ اعلم۔