سورة سبأ - آیت 10

وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے داؤد کو اپنی جانب سے برتری عطا کی ( اور ہم نے پہاڑوں کو حکم دیا) کہ اے پہاڑو۔ تم داؤد کے ساتھ تسبیح میں موافقت کرو اور پرندوں کو بھی (یہی حکم دیا) اور ہم نے ان کے لیے لوہے کو نرم کردیا (٣)۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(٣) حضرت داؤد قبیلہ یہوداہ کے ایک نوجوان تھے ایک معرجہ میں جالوت کو قتل کرکے انہوں نے ناموری حاصل کرلی اور تدریجا بنی اسرائیل کے بادشاہ منتخب ہوگئے انہوں نے یروشلم کو فتح کرکے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا جس سے بنی اسرائیل کی ریاست کو وسعتحاصل ہوگئی اور ساحل بحر تک تمام ملک ان کے قبضہ میں آگیا لیکن پھر بھی بنی اسرائیل میں نظم واطاعت کی روح پیدا نہ ہوئی۔ یہاں پر حضرت داؤد پر جن انعامات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے وہ پہاڑؤں اور پرندوں کی حضرت داؤد کے ساتھ مل کر تسبیح کرنا ہے اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک وہ جو، ان من شئی الا یسبح بحمدہ، سے ظاہر ہے اور دوسرا یہ کہ جب حضرت داؤد حمد الٰہی کے نغمے گاتے توسماں بندھ جاتا تھا اور چٹانیں تک وجد میں آجاتی تھیں۔ حضرت داؤد خوش آواز تھے جس کی تائید احادیث اور روایات سے بھی ہوتی ہے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عبرانی موسیقی مرتب کی اور مصری اور بابلی مزامیر کو ترقی دے کر نئے نئے آلات ایجاد کیے، جب وہ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر بیٹھ کر حمد الٰہی کے ترانے گاتے اور اپنا بربط بجاتے تو شجر وحجر جھومنے لگتے تھے اس طرح پرندوں کی تسخٰر کو بھی دونوں باتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے کتاب زبور دراصل انہیں نظموں کا مجموعہ ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے الہام الٰہی سے نظم کی تھیں۔ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کی لوہے پر قدرت اور جنگی اغراض کے لیے زرہ بانی کو بھی قرآن مجید نے خاص طور پر بیان کیا ہے جب تک آتشیں اسلحہ ایجاد نہ ہوئے تھے جنگ میں حفاظت کابڑا ذریعہ آہنی لباس کا استعمال تھا حضرت داؤد نے اسے فروغ دیا اور طرح طرح کی نئی ایجادات کیں تاریخی آثار سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے ایک ہزار سال قبل مسیح تک زرہ کا استعمال قوموں میں دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کے بعد سے زرہ خود کا استعمال شروع ہوجاتا ہے یہی زمانہ تقریبا داود (علیہ السلام) کا ہے اس کے بعددوسری چیزیں بھی استعمال ہونے لگتی ہیں یہاں تک کہ سکندر کے عہد میں یونانی اور ایرانی دونوں سرتاپا آہن پوش ہوگئے تھے اور پھر ادوم کے علاقہ میں کھدائی بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں عقبہ اور ایلہ کے متصل حضرت سلیمان کے عہد کی بندرگاہ عصیون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بعض وہ آلات استعمال کیے گئے ہیں جو آج جدید ترین دور میں استعمال ہوتے ہیں۔