لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
بے شک رسول اللہ کی زندگی میں ان کے لیے (پیروی اور اتباع کا) ایک بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت سے ڈرنے (یا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے) اور اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے ہوں (٥)۔
(٥)۔ (ب) آیت ٢١ میں پیچھے رہنے والوں پر عتاب ہے اور جنگ کے موقع پر بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عملی زندگی کواسوہ قرار دیا ہے علماء نے لکھا ہے کہ یہ آیت گوجہاد کے باب میں نازل ہوئی ہے لیکن یہ ہر موقع ومحل کے لیے اور مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی معاملے میں اپنے آپ کو رسول اللہ کاپیروی سے مستثنی سمجھیں۔ ” قرآن کریم میں ایک بڑا حصہ انبیائے سابقین کے قصص واعمال کا ہے اور اس کا عام انداز بیان یہ ہے کہ وہ پہلے ایک خاص تعلیم پیش کرتا ہے پھر اس کی صداقت کے لیے امم گزشتہ اور اعمال انبیائے سابقہ کے حالات وواقعات سے ایک خطابی استدلال پیش کرتا ہے لیکن تمام قرآن میں اگر مسلمانوں کے سامنے کوئی کامل زندگی کے ازسرتاپا اعمال بطور نمونہ پیش کیے گئے ہیں ان کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے تو وہ صرف دو نمونے ہیں خوش شریعت اسلامیہ کے داعی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم اور ملت حنیفی کے داعی حضرت خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ السلام، اسوہ کا صحیح مطلب سمجھ لینا چاہیے، امام راغب، مفردات میں لکھتے ہیں : اسوہ مثل قدوہ، کے ہے اور قدوہ اس حالت کو کہتے ہیں جسے کسی دوسرے انسان میں دیکھ کر انسان اس کی پیروی کرے پس اسوہ سے مقصود پیش نظر حالت ہے جس کی پیروی اور متابعت کی جائے“۔ دراصل یہ باب، اسایاسر نصر، کا مصدر ہے جس کے اصل معنی زخم کی مرہم پٹی کرنا ہے قرآن مجید نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اور پیروی کواسوہ قرار دے کراشارہ فرمایا ہے کہ تمہارے تمام دکھوں اور دردوں کا علاج آپ کی زندگی میں علی وجہ الاتم موجود ہے بشرطیکہ تمہارے دلوں میں اللہ کا خوف اور یوم آخرت پر ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے والے بن جاؤ۔