أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ؟ (یعنی اگر پھرتے) تو دیکھتے کہ وہ قومین جو ان سے پہلے گزری ہیں ان کا انجام کیا ہوا وہ قومیں تھیں جو ان سے تمدن وترقیات اور قوائے جسمانی سے بڑھ کر قوی تھیں انہوں نے زمین پر اپنے کاموں کے آثار چھوڑے اور جس قدر تم نے اسے متمدن بنایا ہے اس سے کہیں زیادہ انہوں نے تمدن پھیلایا ہے لیکن جب ہمارے رسول ان میں بھیجے گئے اور ہماری نشانیاں انہیں دکھائی گئیں تو انہوں نے سرکشی اور بغاوت سے انہیں جھٹلادیا اور برباد فنا ہوگئے خدا ظلم کرنے والا نہیں تھا لیکن انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا (٢)
(٢) آیت نمبر ٩ قرآن مجید نے امم سابقہ واقوام پیش کا تذکرہ صرف اس لیے کیا ہے کہ قانون ہدایت وشقاوت کے نتائج پر انسان کو توجہ دلائے جب انہوں نے احکام الٰہیہ کو پس پشت ڈال دیا اور خدا کی حکومت میں رہ کر اس سے بغاوت اور سرکشی شروع کردی تو کوئی انسان سعی وتلاش فلاح ان کو ہلاکت وبربادی سے نہ بچاسکی، یہاں تک کہ آج ان کے آثار بھی دنیا میں باقی نہیں۔ مظاہر قدرت : قرآن حکیم نے جہاں کہیں قدرت الٰہی اور مظاہر خلقت کے عجائب وغرائب پر انسان کو توجہ دلائی ہے وہاں خاص طور پر رنگوں کے مظاہر متنوعہ اور عجائب مختلفہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ اختلاف الوان کے متعلق جو کچھ شارحین اور عالمین علم نے تحقیق کیا ہے اس میں ابھی تحقیق مزید کی بہت بڑی گنجائش ہے موجودہ تحقیقات سے بھی ثابت ہوتا ہے اختلاف الوان کے اندر حکمت الٰہیہ نے بعض عجیب وغریب اسرار ومصالح رکھے ہیں آگے چل کر نہیں معلوم کہ کس قدر اسرار منکشف ہوں قرآن حکیم نے اسی زمانہ میں جبکہ انسان کی معلومات محدود تھیں اختلاف الوان کو اللہ کی قدرت وحکمت کی نشانی قرار دیا ہے پھر کیا یہ اسی کا قول نہیں جس کے فعل کے اسرار ومقاصد کی تحقیقات جاری ہے۔ اس کے بعد قرآن نے آیت چوبیس میں بارش اور مردہ زمین کی زندگی سے بعث بعدالموت پراستدلال کیا ہے۔ دنیاعالم کون وفساد ہے، یہاں ہر بننے کے ساتھ بگڑتا ہے کائنات عالم کا تمام بگاڑ بھی اسی لیے ہے کہ بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کو زندگی وشادابی کے لیے ایک قطرہ بارش میسر نہ آتا، اگر بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو باران رحمت کا فیضان نہ ہوتا اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹیں تو زمین کے اندر کھولتا ہوا مادہ اس کرہ کی سطح کو پارہ پارہ کردیتا تم بول اٹھو گے یہ مادہ پیدا ہی کیوں کیا لیکن جاننا چاہیے کہ اگر یہ مادہ نہ ہوتا تو زمین کی قوت نشوونما کا ایک ضروری عنصر مفقود ہوتا۔