فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ
چنانچہ ( ایک دن) جب زکریا عبادت گاہ میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، فرشتوں نے انہیں آواز دی کہ : اللہ آپ کو یحی کی ( پیدائش) کی خوشخبری دیتا ہے جو اس شان سے پیدا ہوں گے کہ اللہ کے ایک کلمے کی تصدیق کریں گے، (١٣) لوگوں کے پیشوا ہوں گے، اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے مکمل طور پر روکے ہوئے ہوں گے، (١٤) اور نبی ہوں گے اور ان شمار راست بازوں میں ہوگا۔
13: اللہ کے کلمے سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ اس سورت کے شروع میں اوپر واضح کیا گیا ہے انہیں کلمۃ اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ باپ کے بغیر اللہ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے تھے، حضرت یحیی (علیہ السلام) ان سے پہلے پیدا ہوئے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کی تصدیق فرمائی۔ 14: یہاں حضرت یحیی (علیہ السلام) کی ایک خاص صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھنے والے ہوں گے، یہ صفت اگرچہ تمام انبیاء علیہم السلام میں پائی جاتی ہے ؛ لیکن ان کا خاص طور سے اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس درجہ مشغول رہتے تھے کہ ان کو نکاح کرنے کی طرف رغبت نہیں ہوئی، اگرچہ عام حالات میں نکاح سنت ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے ؛ لیکن اگر کوئی شخص اپنے نفس پر اتنا قابو یافتہ ہوجیسے حضرت یحیی (علیہ السلام) تھے تو اس کے لئے کنوارا رہنا بلا کراہت جائز ہے۔