سورة القصص - آیت 59

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یادرکھو تمہارے پروردگار کا قانون یہ ہے کہ وہ کبھی انسانوں کی بستیوں کو (پاداش عمل میں) ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان میں ایک پیغمبر مبعوث نہ کردے اور وہ خدا کی آیتیں پڑھ کر نہ سناوے اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں مگر صرف اس حالت میں کہ ان کے باشندوں نے ظلم کاشیوہ اختیار کرلیاہو (١٦)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(١٦) تم سے پہلے بہت سی آبادیاں بربادیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں اس لیے کہ انہوں نے تمہاری طرح اپنی خوشحالی کی وجہ سے تکبر کیا اور بالآخر وہ ملیامیٹ کردی گئیں بہرحال دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اس کی خاطر آخرت کی ابدی زندگی کو تباہ وبرباد کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے، تماشا گاہ ہستی کا ایک بہت بڑا منظر وہ تغیرات ہیں جن کے طوفان قوموں اور ملکوں کے اندر اٹھتے ہیں اور بڑی بڑی آبادیوں کو تہ وبالا کردیتے ہیں حتی کہ آبادیوں کی جگہ ویرانیوں سے مبدل جاتی ہے زندگی کی رونق پر موت کاسناٹآ چھا جاتا ہے اور انسانی عیش ونشاط کے بڑے بڑے محل مدفن قبور ومقبرہ وخرابہ سلب ونہب ہو کر بودومفقود ہوجاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ بات عدل الٰہی کے خلاف ہے کہ ایک گروہ اپنے اعمال بد کے لیے جواب دہ ٹھہرایاجائے حالانکہ اس کی ہدایت کے لیے کوئی رسول نہ بھیجا گیا ہو۔