لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ۚ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ
(اے پیغمبر) ہم نے ہر امت کے لیے (عبادت کا) ایک طور طریقہ ٹھہرا دیا ہے جس پر وہ چل رہی ہے، پس لوگوں کو اس معاملہ میں (یعنی اسلام کے طور طریقہ میں) تجھ سے جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں، تو اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو دعوت دے (کہ اصل دین یہی ہے) یقینا تو ہدایت کے سیدھے راستے پر گامزن ہے۔
آیت (٦٧) میں اس اصل عظیم کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل دین ایک ہے البتہ مناسک میں یعنی عبادت کے طور طریقہ میں اختلاف ہوا کیونکہ ہر عہد اور ہر قوم کی حالت یکساں نہ تھی۔ جس کی جیسی حالت تھی اس کے مطابق ایک طور طریقہ اسے دے دیا گیا، پس طالب حق کو چاہیے کہ سب سے پہلے اصل کو دیکھے نہ یہ کہ فرع کے پیچھے پڑجائے۔ فرمایا (فلا ینازعنک فی الامر) اس بارے میں تم سے نزاع کرنے کا لوگوں کو حق نہیں۔ جس بات پر انہیں غور کرنا چاہیے وہ تو یہ ہے کہ اصل دعوت کیا ہے ؟ (وادع الی ربک، انک لعلی ھدی مستقیم) اصل دین دعوت الی اللہ ہے اور یہی ہے جو ہدایت کی سیدھی راہ ہے۔