وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور (اے پیغمبر) ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول اور جتنے نبی بھیجے سب کے ساتھ یہ معاملہ ضرور پیش آیا کہ جونہی انہوں نے (اصلاح و سعادت کی) آرزو کی، شیطان نے ان کی آرزو میں کوئی نہ کوئی فتنہ کی بات ڈال دی اور پھر اللہ نے اس کی وسوسہ اندازیوں کا اثر مٹایا اور اپنی نشانیوں کو اور زیادہ مضبوط کردیا، وہ (سب کچھ) جاننے والا (اپنے سارے کاموں میں) حکمت والا ہے۔
پھر آیت (٥٢) میں مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ راہ کی ٹھوکروں سے غافل نہ ہوجائیں، نتائج کا ظہور یقینی ہے لیکن ساتھ ہی کشمکش بھی ناگزیر ہے، کیونکہ اس بارے میں سنت الہی کی نمود ہمیشہ ایسی ہی رہی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ حق و باطل کی کشمکش کے بغیر حق کی فتح مندی آشکارا ہوجائے۔ چنانچہ فرمایا : کوئی رسول اور نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا کہ اس کی طلبگاریوں کی راہ میں یعنی اصلاح و ہدایت کی راہ میں شیطان کی فتنہ پردازیوں نے رخنہ ڈالنا نہ چاہو ہو، اور مفسدانہ قوتیں پوری طرح آمادہ پیکار نہ ہوگئی ہوں۔ پس اس معاملہ کی سچائی کا معیار یہ نہیں ہے کہ شیطانی وسودہ اندازی خلل انداز ہوتی ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ ہے کہ بالآخر کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اور وحی و نبوت کی ربانی قوتیں اس کے اثرات ملیا میٹ کردیتی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ شیطانی قوتیں کسی حال میں بھی نابود نہیں ہوجاسکتیں۔ جب تک انسان موجود ہے شیطان اور اس کی وسوسہ اندازیاں بھی موجود ہیں، لیکن وحی و نبوت کے اعمال کی خصوصیت یہ ہے کہ شیطانی قوتیں کتنی ہی ابھریں، فتح مند نہیں ہوسکتیں۔ فینسخ اللہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایاتہ۔ وہ جتنے فتنے بھی اٹھاتی ہیں، اللہ ان کے اثرات محود کردیتا ہے، اور پھر اپنی نشانیوں کو اور زیادہ مضبوط کردیتا ہے، یعنی شیطانی فتنہ جتنا بڑھتا جاتا ہے اللہ کی نشانیوں کا نقش اور زیادہ جمتا اور گہرا ہوتا جاتا ہے۔