وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
اور (اے پیغمبر) یہ لوگ تجھ سے عذاب کے مطالبہ میں جلدی مچا رہے ہیں (یعنی کہتے ہیں اگر سچ مچ کو عذاب آنے والا ہے تو کیوں نہیں آچکتا؟) اور اللہ کبھی ایسا کرنے والا نہیں کہ اپنا وعدہ پورا نہ کرے، مگر تیرے پروردگار کے یہاں ایک دن کی مقدار ایسی ہے جیسے تم لوگوں کی گنتی میں ایک ہزار برس۔
آیت (٤٧) میں قوانین کائنات کی ایک بہت بڑٰ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مفسروں نے اس کی ساری اہمیت ضائع کردی۔ فرمایا یہ عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں، یعنی از راہ شرارت کہتے ہیں، اگر سچ مچ کو بد عملیوں کا برا نتیجہ پیش آنے والا ہے تو کیوں نہیں آچکتا؟ لیکن یہ نہیں جانتے کہ فطرت کائنات کی اوقات شماری کا وہو حساب نہیں جو دنیا میں لوگوں نے بنا رکھا ہے۔ اس کی گھڑی کا کانٹا بہت دیر میں چلتا ہے، تمہاری تقویم میں ہزار برس گزر جائیں تو اس کی تقویم کا بمشکل ایک دن گزرے، پس ظہور نتائج کا فیصلہ اپنی صبح و شام دیکھ کر نہ کرلیا کرو۔ ٹھہرو اور انتظار کرو، ایک دوسرے موقع پر ہزار برس کی جگہ پچاس ہزار برس کی بھی مدت فرمائی ہے۔ یہ مقام مہمات معارف میں سے ہے۔ تشریح کے لیے سورۃ فاتحہ دیکھو۔