إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ
جو لوگ ایمان لائے ہیں یقینا اللہ (ظالموں کے تشدد سے ے) ان کی مدافعت کرتا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ امانت میں خیانت کرنے والوں کو کہ کفران نعمت کر رہے ہیں کبھی پسند نہیں کرسکتا۔
آیت (٣٨) اور (٣٩) میں مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں اب ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔ بالاتفاق یہ پہلی آیت ہے جو اذن قتال کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس سے پہلے قریش مکہ کا یہ ظلم بیان کردیا تھا کہ انہوں نے مسلمانوں پر حج کی راہ بند کردی ہے جس کا انہیں کوئی حق نہیں۔ اب یہاں صاف صاف لفظوں میں واضح کردیا کہ جو از قتال کی علت کیا ہے ؟ فرمایا : (بانھم ظلموا) اس لیے کہ مسلمان مظلوم ہیں اور مظلوم کا حق ہے کہ ظالم کے مقابلہ میں اپنا بچاؤ کرے، یہ مظلوم تیرہ برس تک قریش مکہ کے ظلم و تشدد کا نشانہ رہے۔ بالآخر ترک وطن پر مجبور ہوئے، لیکن غربت میں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا گیا، ان کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا گیا، آخر ان کا قصور کیا تھا، صرف یہ کہ یقولوا ربنا اللہ، وہ کہتے تھے ہم اپنے یقین کے مطابق اپنے پروردگار کو یاد کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دوسروں کو مجبور نہیں کرتے کہ ہمارا اعتقاد تسلیم کرلیں، لیکن دوسرے ہمیں کیوں مجبور کرتے ہیں کہ اپنے اعتقاد سے دست بردار ہوجائیں؟ اس کے بعد واضح کیا کہ یہ مظلوموں کا قدرتی حق ہے اگر وہ اس حق سے محروم کردیے جائیں تو دنیا میں انسانی ظلم و استبداد کی مدافعت کا کوئی سامان باقی نہ رہے۔ جس گروہ کی بن پڑے دوسرے گروہ کے اعتقاد و عمل کی آزادی ہمیشہ کے لیے پامال کردے۔ چنانچہ فرمایا یہاں اللہ نے ایک جماعت کے ہاتھوں دوسری جماعت کے ظلم وتشدد کو دفع کرانے کا نظام قائم ر کر رکھا ہے۔ اگر یہ سلسلہ مدافعت بعض ببعض نہ ہوتا تو دنیا میں خدا پرستی کا خاتمہ ہوجاتا، کسی گروہ کی عابدت گاہ انسانی ظلم و استبداد کے ہاتھوں محفوظ نہ رہتی۔