وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
اور (دیکھو) ہم نے (سمندر کی) تند ہواؤں کو بھی سلیمان کے لیے کیسا مسخر کردیا تھا کہ اس کے حکم پر چلتی تھیں اور اس سرزمین کے رخ پر جس میں ہم نے بڑی ہی برکت رکھ دی ہے (یعنی فلسطین اور شام کے رخ پر جہاں بحر احمر اور بحر متوسط سے دور دور کے جہاز آتے تھے) اور ہم ساری باتوں کی آگاہی رکھتے ہیں۔
آیت (٨١) میں فرمایا ہم نے سمندر کی بادتند سلیمان کے لیے مسخر کردی تھیں۔ یعنی بادبانی کے بڑے بڑے جہاز چلنے لگے تھے، اور خشکی کے جانوروں کی طرح سمندر کی ہوائیں بھی ان کے ل یے بار برداری اور نقل و حرکت کا ذریعہ ہوگئی تھیں۔ سمندر کی ہواؤں کا معاملہ بھی قدرت کے عجائب مظاہر میں سے ہے۔ جس وقت تک دخانی قوت کا انکشاف نہیں ہوا تھا، بحری سیر وسیاحت کا ذریعہ یہی ہوائیں تھیں۔ یہ مختلف جہتوں میں چلتی ہیں اور مختلف وقتوں میں چلتی ہیں اور ان کی جہتیں اور اوقات اس درجہ معین اور منضبط ہیں کہ کبھی ان میں فرق نہیں پڑ سکتا۔ پھر ان کی تندی و طاقت کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے جہازوں کو تنکوں کی طرح سمندر کی سطح پر دوڑاتے ہوئے لے جاتی ہیں۔ قدیم عہدوں میں حضرت سلیمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے جہازوں سے اس طرح کام لینا شروع کیا کہ ہندوستان اور مغربی جزائر تک بحری آمد و رفت کا منظم سلسلہ قائم ہوگیا۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تجارتی بیڑہ وقت کا سب سے زیادہ طاقتور بیڑہ تھا۔ بحر احمر میں اس کا مرکز ترسیس تھا جو خلج عقبہ میں واقع تھا۔ اور بحر متوسط میں صور، طائر، یافہ کی بندرگاہیں۔ فلسطین کا علاقہ ایسے گوشہ میں واقع ہوا ہے کہ اس کے مغرب و شمال میں بحر متوسط ہے اور جنوب میں بحر احمر۔ پس اسے متضاد سمتوں کی ہوائیں چاہیں تاکہ دنیا کے جہاز اس کے ساحلوں تک پہنچ سکیں۔ یعنی بحر احمر میں شمالی ہوا اور متوسط میں جنوبی اور مشرقی۔ اور اگرچہ دونوں سمندروں کا باہمی فیصلہ کچھ زیادہ نہیں لیکن قدرت الہی نے ان کی ہواؤں کی سمتیں ایسی ہی رکھ دی ہیں بیک وقت بحر احمر میں بادشمال کے جھونکے چلتے ہیں اور متوسط میں باد جنوب کے اور دونوں یکساں طور پر سواحل شام و فلسطین کے لیے مفید ہیں۔ اس تفصیل کے بعد الی الارض التی بارکنا فیھا : کا مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ قرآن میں شیطان کا اطلاق شیاطین الجن پر بھی ہوا ہے اور شیاطین الانس پر بھی۔ مثلا (انما ذلکم الشیطان یخوف اولیائہ) میں شیطان سے مقصود قریش مکہ کا بھیجا ہوا جاسوس ہے یا (واذ زین لھم الشیطان اعمالھم) میں شیطان کا اطلاق سراقہ بن مالک ابن جعشم پر کیا گیا جو قریش کو لڑائی پر ابھارتا تھا مگر پھر بھاگ گیا۔