سورة الأنبياء - آیت 48

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) یہ واقعہ ہے کہ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان (یعنی حق کو باطل سے الگ کردینے والی قوت) اور (وحی الہی کی) روشنی اور متقیوں کے لیے نصیحت دی تھی۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٤٨) سے سلسلہ بیان اس طرف متوجہ ہوگیا ہے کہ متذکرہ صدر مقاصد پر گزشتہ دعوتوں اور قوموں کی سرگزشتوں سے استشہاد کیا جائے۔ چنانچہ پہلے حضرت موسیٰ کی دعوت کی طرف اشارہ کیا جن کی کتاب وحی کا حال عام طور پر معلوم و مسلم تھا۔ فرمایا اسی طرح قرآن کا بھی نزول ہوا ہے۔ پھر اگر وہ اس سے منکر ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تمام سلسلہ وحی و تزیل سے منکر ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم کی زندگی کا وہ ابتدائی واقعہ بیان کیا ہے جو ان کے وطن اور میں پیش آیا تھا۔ جہاں سے ہجرت کر کے وہ کنعان آئے اور وہیں بقیہ عمر کے لیے بس گئے۔ حضرت ابراہیم نے جب دیکھا کہ بتوں کی عظمت لوگوں کے دلوں میں اس طرح جم گئی ہے کہ عقل و بصیرت کی کوئی صدا بھی اسے متزلزل نہیں کرسکتی، تو اعلان حقیقت کے لیے انہوں نے ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا، ایسا طریقہ کہ تمام لوگوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، ان کے معبود خود ان سے بھی زیادہ عاجز اور بے بس ہیں اور وہمی اور وایتی عقیدت کے سوا کوئی حقیقت موجود نہیں۔ تشریں اسی سورت کے آخر میں ملے گئی۔ جب لوگ اس مقابلہ میں عاجز و درماندہ ہوگئے تو پھر جیسا کہ جہل و تعصب کا قاعدہ ہے ظلم و تشدد پر اتر آئے۔ انہوں نے چاہا حضرت ابراہیم کو زندہ آگ میں جلا دیں۔ لیکن اللہ نے ان کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیے اور حضرت ابراہیم زندہ سلامت وہاں سے نکل کر کنعان چلے گئے، ان کے ساتھ ان کے بھتیجے حضرت لوط بھی تھے ان دونوں کے توطن کنعان کی تفصیل بہ ضمن آیت (٦٩) سورۃ ہود میں گزر چکی ہے۔ اگر ایک آدمی ایک طرف کھیت بوئے، دوسری طرف رات کو اپنی بکریاں بھی کھول دیا کرے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہی کہ ساری فصل تباہ ہوجائے گی۔ وہ جتنا چر سکیں گی چر لیں گی، جتنا روند سکیں گی روند جائیں گی۔ یہی حال یہودیوں کا تھا، وہ ایک طرف بناتے تھے دوسری طرف خود اپنے ہاتھوں اسے اجاڑ دیتے تھے۔ حضرت داؤد نے انہین فلسطینیوں پر فتح مند کرایا اور تمام ملک ساحل بحر تک ان کے قبضہ میں آگیا لیکن پھر بھی ان میں نظم و اطاعت کی روح پیدا نہی ہوئی۔ البتہ حضرت سلیمان کے زمانہ میں ایک نیا انقلاب رونما ہوا، اور انہوں نے اپنی دانش و حکمت و نبوت سے یہودیوں کی حالت ایسی پلٹ دی کہ ایک عظیم الشان عبرانی مملکت قائم ہوگئی۔