لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
اور اگر (ایسی صورت پیش آجائے کہ) بغیر اس کے کہ تم نے عورت کو ہاتھ لگایا ہو، اور اس کے لیے جو کچھ (مہر) مقرر کرنا تھا، مقرر کیا ہو، طلاق دے دو تو (ایسا بھی کرسکتے ہو) اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ایسی صورت میں (عورت کو رشتہ جوڑنے اور پھر توڑ دینے سے جو نقصان پہنچا ہے اس کے معاوضے میں ضروری ہے کہ) اسے فائدہ پہنچاؤ۔ ایسا فائدہ جو دستور کے مطابق پہنچایا جائے۔ مقدور والا اپنی حیثیت کے مطابق دے تنگ دست اپنی حالت کے مطابق۔ نیک کردار آدمیوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کریں
اگر نکاح کے بعد شورہ اور بیوی میں کوئی تعلق نہ ہوا ہو، اور شوہر طلاق دے دے تو اس صورت میں مہر کے احکام اور عورتوں کی حق تلفی کی امکانی صورتوں کا تدارک : 1۔ اگر مہر کی رقم متعین نہ ہوئی ہو، تو اس صورت میں چاہیے مرد اپنے مقدور کے مطابق جس قدر دے سکتا ہے، دے دے۔ 2۔ اگر معین ہو، تو اس صورت میں آدھا مہر عورت کا حق ہوگا، اگر مرد اس سے زیادہ بھلائی کرسکے تو یہ تقوے اور فضیلت کی بات ہوگی۔ 3۔ اس اصولی حقیقت کی تلقین کہ نکاح کے معاملہ میں مرد کا ہاتھ عورت سے زیادہ قوی ہے۔ اس لیے چاہیے کہ ہر معاملہ میں عفو و بخشش بھی اس کی طرف سے زیادہ ہو نہ کہ عورت کی طرف سے۔