الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
طلاق (جس کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے) دو مرتبہ (کرکے دو مہینوں میں دو طلاقیں ہیں)۔ پھر اس کے بعد شوہر کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو اچھے طریقے پر روک لینا (یعنی رجوع کرلینا) یا پھر حسن سلوک کے ساتھ الگ کردینا۔ (یعنی تیسرے مہینے تیسری طلاق دے کر جدا ہوجا) اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اپنی بیویوں کو دے چکے ہو (طلاق دیتے ہوئے) اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر شوہر اور بیوی کو اندیشہ پیدا ہوجائے کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے (تو باہمی رضامندی سے ایسا ہوسکتا ہے) تو اگر تم دیکھو ایسی صورت پیدا ہوگئی ہے کہ واقعی) اندیشہ ہے خدا کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہ ہوسکیں گے، تو پھر شوہر اور بیوی کے لیے اس میں کچھ گناہ نہ ہوگا، اگر بیوی (اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے) بطور معاوضے کے (اپنے حق میں سے) کچھ دے دے (اور شوہر اسے لے کر علیحدگی پر راضی ہوجائے) یاد رکھو، یہ اللہ کی ٹھرائی ہوئی ھد بندیاں ہیں، پس ان سے قدم باہر نہ نکالوں (اور اپنی اپنی حدوں کے اندر رہو) جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں سے نکل جائے گا، تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں
طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تین مرتبہ، تین مجلسوں میں، تین مہینوں میں، اور ایک کے بعد ایک واقع ہوتی ہے۔ اور وہ حالت جو قطعی طور پر رشتہ نکاح قطع کردیتی ہے، تیسری مجلس، تیسرے مہینے اور تیسری طلاق کے بعد وجود میں ٓتی ہے۔ اس وقت تک جدائی کے ارادے سے باز ٓجانے اور ملاپ کرلینے کا موقع باقی رہتا ہے۔ پس نکاح کا رشتہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس گھڑی چاہا، بات کی بات میں توڑ کر رکھ دیا۔ اس کے تورنے کے لیے مختلف منزلوں سے گزرنے، اچھی طرح سوچنے سمجھنے، یکے بعد دیگرے اصلاح کی مہلت پانے، اور پھر اصلاح حال سے بالکل مایوس ہو کر آخری فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ بیوی کو دے چکا ہے یا دینا کیا ہے طلاق دیتے ہوئے واپس لے لے۔ (جیسا کہ عرب میں جاہلت میں لوگ کیا کرتے تھے) ہاں اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ شوہر طلاق دینا نہ چاہتا ہو نہ اس کی طرف سے کوئی تصور ہو۔ لیکن کسی وجہ سے آپس میں بنتی نہ ہو اور اندیشہ پیدا ہوگیا کہ ازدواجی زندگی کے فرائض ادا نہ ہوسکیں گے، تو اس صورت میں اگر عورت کہے، میں اپنا مہریاں اس کا کوئی حصہ چھوڑ دیتی ہوں، اور شوہر اس کے بدلے میں طلاق دے دے تو ایسی معاملت ہوسکتی ہے۔ اسی کو "خلع" کہتے ہیں۔ نکاح کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے گلے پڑجائیں، اور نہ یہ ہے کہ عورت کو مرد کی خود غرضانہ کام جوئیوں کا آلہ بنا دیا جائے۔ بلکہ مقصود حقیقی یہ ہے کہ دونوں کے ملاپ سے ایک کامل اور خوش حال ازدواجی زندگی پیا ہوجائے۔ ایسی زندگی جب ہی پیدا ہوسکتی ہے۔ کہ آپس میں محبت و سازگاری ہو، اور حدود اللہ یعنی خدا کے ٹھہرائے واجبات و حقوق ادا کیے جائیں اگر کسی وجہ سے ایسا نہیں ہے تو نکاح کا مقصود حقیقی فوت ہوگیا اور ضروری ہوگیا کہ دونون فریقوں کے لیے تبدیلی کا دروازہ کھول دیا جائے۔ اگر مقصود نکاح کے فوت ہوجانے پر بھی علیحدگی کا دروازہ نہ کھولا جاتا۔ تو یہ انسان کے آزادانہ حق انتخاب کے خلاف ایک ظالمانہ رکاوٹ ہوتی اور ازدواجی زندگی کی سعادت سے سوسائٹی کو محروم کردینا ہوتا۔ یا تو عورت کو بیوی کی طرح رکھنا چاہیے اور اس کے حقوق ادا کرنے چاہیں یا طلاق دے کر اس کی راہ کھول دینی چاہیے۔ یہ نہیں کرنا چاہیے کہ نہ تو بیویوں کی طرح رکھو، نہ طلاق دے کر اس کی راہ کھولو۔ بیچ میں لٹکائے رکھو (جیسا کہ عرب جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے)۔ ازدواجی زندگی کا معاملہ نہایت اہم اور نازک ہے۔ اور مرد کی خود غرضیوں اور نفس پرستیوں سے ہمیشہ عورتوں کی حق تلفی ہوئی ہے۔ اس لیے خصوصیت کے ساتھ یہاں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی کہ اللہ نے انہیں "نیک ترین" امت ہونے کا مرتبہ عطا فرمایا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم نے ہدایت و موعظت کے تمام پہلو واضح کردیے ہیں پس اپنے جماعت شرف و مقام کی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوں اور زدواجی زندگی میں اخلاق و پرہیز گاری کا بہترین نمونہ بنیں۔ ضمناً اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ جس جماعت کے افراد کی ازدواجی زندگی درست نہیں ہے وہ کبھی ایک فلاح یافتہ جماعت نہیں ہوسکتی۔